Thursday, March 24, 2011

معاشرہ میںقرآن کا پیدا کردہ انقلاب

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکی رشدوہدایت صلاح وفلاح کامیابی وکامرانی عزت و وقار،سکون وچین راحت واطمینان کے لئے ایسے کلام کوجو  لَارَیبَ فِیہِ ،  ھُدی لِلمُتَّقِین ، ھُدی لِلنَّاس ِ وَ بَیِّنٰت مِنَ الھدیٰ و الفُرقان ہے  جو  بَینَ الحَقِّ وَالَباطل ہی، جس کا پڑھنا پڑھاناخیرکثیرکاسبب ہے جسے دیکھنا عبادت ہے ۔جس کی تلاوت وجہ حلاوت ہے ،جس پرعمل سبب ِدخولِ جنت ہی۔ جسے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ترین بندے سیدالمرسلین، خاتم النبیین، شفیع المذنبین ، امام الاولین والآخرین ، وجہ تخلیقِ کائنات ،جن کے اخلاق قرآن،جن کی محبت شرط ِتکمیل ِایمان،جن کی اطاعت اللہ کی اطاعت،صاحب مقام محمودجناب محمد الرسول ؐپرنازل فرمایا۔
نزولِ قرآن سے قبل عرب معاشرہ مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی ہر لحاظ سے ظلمت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوباہوا تھا۔ ہر طرف شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کے مال و عزت کے لٹیرے تھی۔ انتقام در انتقام کے لئے طویل جنگیں لڑی جاتیں ، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا عام سی بات تھی۔زیادہ سے زیادہ عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات کو باعثِ فخر سمجھاجاتا۔ شراب، جوا اور زنا ان کے زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھی۔ عریانی کا یہ عالم تھا کہ مرد اور عورتیں عریاں ہوکر بیت اللہ شریف کا طواف کرنا باعثِ ثواب سمجھتے ، مسکینوں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ ان حالات میں جب قرآن مجید کا نزول ہوا تو محض چند سالوں کے مختصر عرصہ میں قرآنی تعلیمات نے حیرت انگیز طور پر عربوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔
جو لوگ اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کرنا معمول کی بات سمجھتے تھے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اعترافِ جرم کرتے اور اپنے کئے پر آنسو بہاتی۔ ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی، میں اسے بلا تا وہ دوڑ تی میرے پاس آتی۔ ایک روز میں نے اسے بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا، راستہ میں ایک کنواں آیا تو میں نے اسے اس میں دھکا دے دیا۔ اُس کی آخری آواز جو میرے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی  ہائے ابّو، ہائے ابّو،، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگی، لوگوں نے اس آدمی کو بات کرنے سے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اسے مت روکو جس بات کا اسے شدید احساس ہے اس کے بارے میں سوال کرنے دو واقعہ سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا ہی، اب نئے سرے سے زندگی کی ابتدا کرو،، ۔ (دارمی)
جب ہم عرب کے تاریک ترین دور کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے پیچ و خم پر نظر ڈالتے ہیں تو جو بات سب سے پہلے  ابھر کر آتی ہے وہ ہے علم ،،اور قلم ،،ہے  اس تاریک ترین دور میں جس چیز نے انقلاب برپا کیا وہ اقراء کی تعلیم تھی ،علم بالقلم کی آواز تھی وہ جاہل قوم جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے ، جب اقراء کی آواز باز گشت ان کے سماع کو ٹکرائی تو وہ چوکنے ہوگئے اور ایسا دیکھنے لگے جیسے کوئی خطرے کی گھنٹی بج رہی ہو سارے لوگ اس طرف متوجہ ہونے لگے کہ یہ کیسی صدا ہے اس آواز میں جادوگری ہے یہ تو کسی اور کا ہی کلام ہے ۔یہ کیا تھا یہ اقراء تحریک،، کی آواز تھی یہ علم بالقلم،، کی صدا تھی ۔ یہ ایک ایسی شمع علمی تھی جس کی روشنی ہر سو پھیلی اور پھیلتی چلی جارہی ہے ۔جس کے نتیجے میں انسانیت اورشرافت کی تقدیر چمکی ، علم و جستجو کے چشمے پھوٹے ،حکیموں ، طبیبوں اور داناؤں کو حکمت و دانائی کے پھول سے دامن کو بھرنے کا موقع ہاتھ آیا۔ بلکہ انہوں نے اس معاملہ میں قرآن کے گل حسن کو اتنا بسیار پایا کہ وہ اس کا احاطہ نہ کرسکے اور اپنی نگہ کی تنگ دامنی کی شکایت پر مجبور ہوئے ۔اور پھر سب سے بڑھ کر اس کتاب ہدایت سے  یہ ہواکہ   ؎
خو د نہ تھے جو راہ پراوروں کے ہادی بن گئے
گرچہ یہ مصرع صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں شاعر نے کہاہے مگر اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ قرآن کے اندر وہ جادو بیانی و طلاقت لسانی ہے کہ بڑے سے بڑ ے دانشور اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا قصہ کافی مشہور ہے کہ جاتے ہیں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے اور خود ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکر واپس آتے ہیں۔
قرآن کیا ہی؟ 
قرآ ن وہ مقدس کتاب ہے جس کے اندر تمام علوم و معارف کو سمیٹا گیا ہے ۔ قرآ ن تبیان لکل شئی ہے ۔ قرآن وہ کتاب مقدس ہے جو آقائے  مدنی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا جس کا ایک ایک حرف من وعن محفوظ ہی۔قرآن وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لے رکھی ہے اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ  قرآن ہی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب مقدس ہی، قرآن وہ کتاب ہدایت ہے کہ جس کے سامنے پڑھی جائے جابر سے جابر ظالم سے ظالم متأثر ہو ئے بغیر نہیں رہتی۔ قرآ ن وہ کتاب ہے جو ہر مؤمن ومسلم کے سینے میں محفوظ ہے ، قرآن وہ کتاب ہے جو دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی ، اور بڑی سے بڑی چیزوں کی مثال بیان کرنے میں ہیچ محسوس نہیں کرتی ۔
اِنَّ  اللّٰہَ  لَا یَستَحیٖٓ اَن یَّضرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَۃً فَمَا فَوقَھَا قرآ ن وہ کتاب ہدایت ہے جو شجرو حجر ، انس و جن، دریاو سمندر، آسمان و زمین کا ذکر کرتاہے ۔قرآ ن وہ مقدس کتاب ہے جو تمام انسانوں کا رشتہ ایک خدا سے جوڑتاہے قُل ہُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔  قرآن ہی وہ مقدس کتاب ہے جو تمام رازہائے سر بستہ کو کھول کھول کر واضح بیان کرتاہے ، قرآن ہی وہ مقدس کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔قرآن ہی وہ مقدس کتاب ہے جس نے دریا کو کوزے میں بند کردیا۔بقولِ شاعر:   جَمِیعُ العِلمِ فِی القُرآنِ لٰکَن  
                        تَقَاصَرَ عَنہُ اَفہَامُ الرِّجَالِ
کہ قرآن کریم کے اندر تمام علوم ہیں لیکن لوگوں کی سمجھ اس سے قاصر ہی۔
قرآن کریم کا مقصد کیا ہی؟ 
قرآن کا اولین مقصد غفلت میں ڈو بی ہوئی انسانیت کو بیدارکرناہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ہٰذا بَلٰغٌ لّلنَّاسِ وَ لِیُنذَرُوا بِہ وَ لِیَعلَمُوا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہ ٌ وَاحدٌ وَلِیَذَّکَّرَ اُولُوالاَلبَابِ۔
 یہ قرآن ایک پیغام ہے تمام انسانوں کے لئے اور اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو خبر دار کردیاجائے اور وہ جان لیں کہ وہی بس ایک خدا ہے اور جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ یاد دہانی حاصل کریں۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی فرمایا:
کِتَابٌ اَنزَلنَاہُ اِلَیکَ لِتُخرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّورِ بِاِذنِ رَبِّہِم اِلٰی صِرَاطِ العَزِیزِ الحَمِیدِ۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قرآن ایک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ، اس راستے کی طرف جو غالب اور تعریف کے لائق ذات کا راستہ ہی۔
عزیزو! قرآن، تدبر ، تفکر کی طرف دعوت دیتا ہی۔کبھی اعلان کرتا ہے  اَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ القُرآن ، تو کبھی صدا دیتا ہے لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرونَ تو کبھی پکارتا ہے ہُدیً للِنَّاس ۔
 آج کے اس تاریک ترین دور میں صرف اور صرف قرآن سے ہی ہدایت حاصل کی جاسکتی ہی۔ اسی قرآن کے ذریعے امت کے اندر جو زوال ہے اس کو دور کیا جاسکتاہی۔ اسی قرآن سے پہلے بھی امت کی اصلاح ہوئی تھی اور آج بھی اسی سے ہوسکتی ہی۔ اِنَّ  ھٰذَا القُراٰنَ  یَھدِی لِلَّتِی  ھِیَ اَقوَمُ ۔
قارئین کرام ! قرآن مجید کا سیکھنا چاہے لفظاً ہو یا معناً۔ لفظا ًکا مطلب قرآن کا دیکھ دیکھ پڑھنا جسے ناظرہ کہا جاتاہی۔ معناً کا مطلب ہے قرآن سمجھ کر غورو فکر کرکی، ترجمہ ، مفہوم، مطالب سب میں غور و فکر کرنا۔اور اس کے بعد اس پر عمل کرنا۔
 اللہ رب العالمین ہماری حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ارشاد فرماتاہے : وَلَقَد  یَسَّرنَا  القُراٰنَ لِلذِّکرِ  فَھَل  مِن  مُّدَّکِر
ہم نے قرآن کریم کو انتہائی آسان کردیا ہے ، ہے کوئی یاد کرنے والا ! ہے کوئی غورو فکر کرنے والا ۔ ہے کوئی نکتہ حاصل کرنے والا۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :  خَیرُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ
 تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور سکھائی،، (بخاری) اور دوسری جگہ تلاوت قرآن کے تعلق سے فرمایا:
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں،،  (ترمذی)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اُتلُ مَااُوحِیَ اِلَیکَ مِنَ الکِتَاب۔
تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہی۔
اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کی تلاوت باعث ثواب ہے ۔ اس لئے قرآن کریم کی تلاوت کو بے وقعت قراردیا جائی۔ یہ قرآن و حدیث میں تلاوت اور حفظ قرآن کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے اس کے سراسر خلاف ہی۔
قرآن کریم کی تلاوت کا پورا پورا فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب اس کو اس طرح تلاوت کی جائے جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے (یَتلُونَہ حَقَّ تِلاَوَتُہ)یعنی سب سے پہلے آدمی کا اس پر ایمان ہو، پھر اسے سمجھنے کی کوشش کرے اس میں غورو فکر کری،اس سے نصیحت پذیر ہو اور اس کی رہنمائی قبول کرتے ہوئے اپنی عملی زندگی کو اس کے مطابق بنائے ۔
قوموں کاعروج و زوال
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ِاِنَّ اللَّہَ یَرفَعُ بِہَذَا الکِتَابِ أَقوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
 اللہ تعالیٰ اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔ (مسلم: 2102 )
یہ حدیث بہت ہی واضح ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے آج احادیث و قرآن کو صرف ایک رسمی کتاب بناکر رکھ دیا ہی۔اس کو سمجھنے کی ہم نے کوشش ہی نہیں کیا۔اس لئے ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ اس قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لیں اسی میں ہماری کامیابی و کامرانی ہی۔ اسی میں ہماری سربلندی وعزت ہی۔ اگر ہم اس قرآن مقدس کو فراموش کردیتے ہیں ، بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور اس کو صرف تبرک سمجھ کر اٹھاتے ہیں تویاد رکھیں یہ قرآن ہم کو بھی فراموش کردے اور ہم کو ذلت کے عمیق غار میں لے جاکر پھینک گا۔ ہمارا نام و نشان مٹادے گا۔ آج دنیا میں جس نے اس کو اپنا یااس کو بلندی ملی، کامرانی ملی، عزت و شہرت ملی۔ اور جس قوم نی، جس شخص نی، جس معاشرے نے اس کو نظر انداز کردیا ان کا وجود بھی آج باقی نہیں ہی۔اس کو دنیا ایسے بھلادی گویا کی کوئی تھاہی نہیں۔
قرآن کی اہمیت و فضیلت احادیث میں متعدد جگہوں پر آئی ہے اور باقاعدہ احادیث کی کتابوں میں قرآن کی فضیلت کا مستقل باب ہے ۔ اسی کے پیش نظر مسلم شریف کی چنداحادیث بیان کرتاہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 أَیُّکُم یُحِبُّ أَن یَغدُوَ کُلَّ یَومٍ ِاِلَی بُطحَانَ أَو ِاِلَی العَقِیقِ فَیَأتِیَ مِنہُ بِنَاقَتَینِ کَومَاوَینِ فِی غَیرِ ِاِثمٍ وَلَا قَطعِ رَحِمٍ فَقُلنَا یَا رَسُولَ  اللَّہِ نُحِبُّ ذَلِکَ قَالَ أَفَلَا یَغدُو أَحَدُکُم ِاِلَی المَسجِدِ فَیَعلَمُ أَو یَقرَأُ آیَتَینِ مِن کِتَابِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ خَیرٌ لَہُ مِن نَاقَتَینِ وَثَلَاثٌ خَیرٌ لَہُ مِن ثَلَاثٍ وَأَربَعٌ خَیرٌ لَہُ مِن أَربَعٍ وَمِن أَعدَادِہِنَّ مِن الِاِبِلِ(مسلم: 2103)
O تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے (یہ دونوں مدینہ کے بازار تھی) اور وہاں سے بڑے بڑے کوہان کی دو اونٹنیاں بغیر کسی گناہ کی اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کری، لائے تو ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ا! ہم سب اس کو چاہتے ہیں۔ آپ ا نے فرمایا کہ پھر تم میں سے ہر ایک مسجد کو کیوں نہیں جاتا اور کیوں نہیں سیکھتا  یا پڑھتا اللہ کی کتاب کی دو آیتیں، جو اس کیلئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیںہوں، اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔دوسری جگہ ارشاد ہی:
 مَثَلُ المُٶمِنِ الَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ مَثَلُ الأُترُجَّۃِ رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعمُہَا طَیِّبٌ وَمَثَلُ المُٶمِنِ الَّذِی لَا یَقرَأُ القُرآنَ مَثَلُ التَّمرَۃِ لَا رِیحَ لَہَا وَطَعمُہَا حُلوٌ وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ مَثَلُ الرَّیحَانَۃِ رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعمُہَا مُرٌّ وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِی لَا یَقرَأُ القُرآنَ کَمَثَلِ الحَنظَلَۃِ لَیسَ لَہَا رِیحٌ وَطَعمُہَا مُرٌّ(مسلم)
 قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس کا مزا بھی اچھا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں بُونہیں مگر مزا میٹھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال پھول کے مانند ہے کہ اس کی بُو اچھی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہی۔ اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن (کوڑ تنبہ) کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑوا ہی۔
ایک اور جگہ ارشاد ہی: المَاہِرُ بِالقُرآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الکِرَامِ البَرَرَۃِ َالَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ وَیَتَتَعتَعُ فِیہِ وَہُوَ عَلَیہِ شَاقٌّ لَہُ أَجرَان۔
 قرآن کا مشاق (اس سے حافظ مراد ہو سکتا ہے جو کہ عامل ہو) ان بزرگ فرشتوں کیساتھ ہے جو لوحِ محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور وہ اس کے لئے مشقت کا باعث ہے تو اس کیلئے دو گنا ثواب ہی۔ (مسلم: 2105)
ایک جگہ آپ نے فرمایا:   لَا حَسَدَ ِاِلَّا فِی اثنَتَینِ رَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ القُرآنَ فَہُوَ یَقُومُ بِہِ آنَاء َ اللَّیلِ وَآنَاء َ النَّہَارِ وَرَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ مَالًا فَہُوَ یُنفِقُہُ آنَاء َ اللَّیلِ وَآنَاء َ النَّہَارِ(مسلم: 2108)
 دومَردوں کے سوا اور کسی پر رشک جائز نہیں ہی۔ ایک تو وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن عنایت کیاہو اور وہ اس دن رات پڑھتا ہو (اور اس پر عمل کرتا ہو) دوسرے وہ جسے  اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اسے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہو۔
ان تمام احادیث سے قرآن کریم کی فضیلت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہی۔
 قرآن کا اثر قوموں پر کیا ہوا
قرآن کی تعلیمات نے معاشرے میں برسوں سے چلی آرہی خودغرضی، بے رحمی اور لوٹ گھسوٹ کو چندسالوں کی مختصر مدت میں ہمدردی، خیرخواہی، ایثار اور قربانی کے انمول سانچے میں ڈھال دیا۔ جنگ یرموک میں چند صحابہ شدید گرمی میں زخموں سے چور شدت پیاس سے تڑپ رہے تھے کہ اتنے میں ایک مسلمان پانی لے کر آیا اور زخمیوں کو پلانا چاہا۔ پہلے نے کہا دوسرے کو پہلے پلادو، دوسرے کو پلانا چاہا تو اس نے کہا تیسرے کو پہلے پلادو، پانی پلانے والا ابھی تیسرے تک نہیں پہنچا تھا کہ پہلا شہید ہوگیا تب وہ دوسرے کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنے مالک کے حضورپہنچ چکا تھا اور جب تیسرے کے پاس آیا تو وہ بھی پانی پئے بغیر اپنے اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ (ابن کثیر)
یہ کیا تھا ؟ یہ قرآن کی دولت تھی، یہ اقرأ کی تحریک تھی، یہ علم بالقلم کی صدا تھی وہی جو پہلے دوسروں کے لئے خونخوارتھے قرآن پڑھنے کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی ، ان کے اندر قربانی کا وہ جذبہ موجزن ہوگیا کہ وہ ایثار و قربانی ، ہم دردی و بہی خواہی کے پیکر بن گئی۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے انتہائی مختصر مدت میں عقیدہء توحید کے ساتھ ساتھ سیرت اور کردار کے اعتبار سے ایک عظیم الشان معاشرہ قائم کردیاجس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ قرآنی تعلیمات نے تئیس برس کی قلیل مدت میں جو سوسائٹی قائم کی اس کا ہر ایک فرد ایک جماعت تھا، اس کا ہر ایک فرد ایک انجمن تھا، اس کا ہرایک فرد ایک قوم و ملت تھا۔وہ کونسی جماعت تھی، وہ صحابہ ء کرام کی جماعت تھی۔ جو جدھر گئے اسلام کا پرچم بلند کئی، دعوت ِ اسلام کو آفاقی بنادیا اور حق کا پیغام سارے عالم میں پھیلادیا وہ اس حدیث سے بخوبی واقف تھے فَلیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغَائبَ ، اور بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوآیۃً۔

No comments:

Post a Comment