Friday, March 25, 2011

  حرم اور امام حرم
مولانا عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی

نمبر۶۲، ہینس روڈ ،تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051
E-mail:  
salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
……………………………………………………………………

وہ مقدس اور پاکیزہ گھر جس کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف ہی۔اپنے مجد و
شرف اور عزت و تکریم کے باعث کعبہ،، کے نام سے موسوم ہوا۔ کعب کسی چیز کی سربلدی اور شرافت کے لئے استعمال ہوتا ہی۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اس فرشِ خاکی پر یہ گھر سب سے زیادہ معزز و مکرم ہی۔
قرآن میں اس متبرک و معظم گھر کو مسجد حرام کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہی۔فَوَلِّ وَجہَکَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرام۔ پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔ (سورہ بقرہ:۳۴۱) سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو ایک رات کے اندر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔اسی طرح سورہ مائدہ میں فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کعبہ کوعزت والا گھر بنایا ہی۔ قرآن و حدیث میں میں مختلف جگہ اس کی فضیلت آئی ہے یہاں پراس کا احاطہ کرنا مشکل ہی۔
مکہ مکرمہ کے امام فضیلت الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس اپنے قرآن کی رقت آمیز تلاوت کی وجہ سے سارے عالم میں مشہور و معروف ہیں۔آپ گویا اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو بناسنوار کر خوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔آپ کی پیدائش 1961میں انزا قبیلے میں ہوئی۔آپ کے آباؤ اجداد کا شمار شرفاء لوگوں میں ہوتا ہی۔ آپ کی تعلیم و تربیت ریاض میں ہوئی۔آپ ۲۱ سال کی عمر میں حفظ مکمل کرلئی۔اس بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی اور ام القریٰ یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہیں سے اسلامی شریعہ میں ڈاکٹریٹ کیا۔
امام حرم ، شیخ العرب و العجم ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس صرف مسجد حرم کے امام نہیں بلکہ سارے عالم کے امام ہیں آپ کی امامت میں سارے عالم کے لوگ چاہے وہ گورے ہوں یا کالے ، عربی ہوں یا عجمی، مالکی ہوں یا شافعی ، حنبلی ہوں یا حنفی سبھی آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔آپ ایسی مسجد کے امام ہیںجس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْ مَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ ِاِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘میری اس مسجد میں نماز ادا کرنا،مسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد میں ہزار نماز ادا کرنے سے افضل ہی۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دن رات میں ایک سو بیس رحمتیں کعبہ شریف پر نازل فرماتا ہے جس میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے ، چالیس نماز پڑھنے والوں اور بیس ان لوگوں کے لئے ہوتی ہیں جو صرف کعبہ شریف کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کررہے ہوتے ہیں۔(جامع اللطیف) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کعبۃ اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہی۔
اس عدیم النظیر شہر کا جاہ و جلال اور عظمت در حقیقت اس سادہ و بے نمود مکان کی مرہونِ منت ہی، جس کی صداقت اور حقانیت پر چار ہزار برس کے حوادثات اور انقلابات بھی کوئی دھبہ نہیں لگاسکی۔ چند پتھروں سے چنی ہوئی چاردیواری جو کروڑوں انسانوں کی پرستش گاہ اور قبلہ وجوہ ہے جو نہ صرف زندگی میں قبلہء جاناں ہے بلکہ مرجانے کے بعد بھی منہ اسی کی سمت کیا جاتا ہے اور خداوند تعالیٰ کے جلال اور قدوسیت نے تمام عالم میں صرف اسی کی چھت کو اپنا نشیمن قراردیا ہی۔
 یہ نگری رب کریم کی اس نعمتِ بیکراں پر جس قدر ناز کرے کم ہی۔ کہ اسی کی آغوش میں رحمت ِ کائنات، فخر ِ موجودات ، مولائے کل، ختمِ رسل، حبیب خدا محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ قدس سے جہانِ رنگ و بو میں جلوہ افروز ہوئی۔ پھر اس کی محبت حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے رگ و ریشہ میں ایسی سرایت کر گئی کہ مشرکین کے روح فرساو جاں گداز مظالم کے باوجود اس کی جدائی کا صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ تیرہ سال کی مسلسل جفاکشی اور قریش کے پیہم جو و جفا کے باوجود آپ کے دل میں مکہ مکرمہ چھوڑنے کا خیال تک نہ آیا۔ اس عرصے میں جو کچھ آپ پر بیتی اس کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس دل دوز داستان کو لکھتے وقت قلم لرز جاتا ہی۔ جب سخت نامساعد حالت کے پیشِ نظر اللہ جل جلالہ نے ترکِ وطن کرکے مدینہ طیبہ کو توحید ِ خداوندی اور تبلیغ اسلام کا مرکز بنانے کا حکم دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی تاریکی میں جب کہ ہر سو خاموشی اور سنّا ٹا تھا اس مقدس شہر سے رخصت ہوتے وقت حسرت بھری نگاہوں سے اس کے درو دیوار اور حجرو شجر کو دیکھ کر دردِ دل سے ارشاد فرمایا:  مَا اَطیَبَکَ مِن بَلَدٍ وَّ اَحَبَّکِ اِلَیَّ ، وَلَو لاَ اَنَّ قَومِی اَخرَجُونِی مَا سَکَنتُ غَیرَکِ۔  (مشکوٰۃ)  اے مکہ ! تو کتنا ذی شان شہر ہی۔ اور مجھے کس قدر محبوب و مرغوب ہی۔ اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسری جگہ قیام نہ کرتا۔
حضرت عبد اللہ بن عدی بن الحمراء ؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ پر سوار الحزورہ کے پاس دیکھا(الحزورہ حرم شریف کے دروازوں میں سے ایک دروزہ ہی) آپ مکہ مکرمہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمارہے تھی۔ ’’وَاللّٰہِ ِاِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ ِاِلَی اللّٰہِ  وَلَوْلَا أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ ‘‘( اللہ کی قسم تم اللہ کی سب سے اچھی سرزمین ہواور اللہ کی سب سے پسندیدہ بھی اور اگر میں وہاں سے نہیں نکالا جاتا تو نہ نکلتا)۔(سنن الترمذی)
امام محترم کی نسبت ایسے منبرو محراب سے ہے ۔ جہاں سے اسلام کی کرنیں طلوع ہوئیں، جہاں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا اور سارے عالم میں پھیل گیا۔یہ وہ مقام ہے جہاں آپؐ کے اصحاب ، تابعین و تبع تابعین نے امامت کے فرائض انجام دیئی۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے سارے عالم میں امن کا پیغام دیا جاتاہی۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روئے زمیں کے تمام شہروں پر مکہ معظمہ کو جو فضیلت ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔زمانہ گواہ ہے کہ اس حال میں اس قدر لاتعداد مخلوق پورے عالم میں مکہ معظمہ کے سوا کہیں بھی جمع نہیں ہوتی اور انشاء اللہ قیامت تک ہر سال اسی جو ش و خروش ، جذبہء اور ولولہ کے ساتھ فرزندانِ توحید یہاں جمع ہوتے رہیں گی۔
یہ معزز شہر مہبط وحی، نزول قرآن مجید اور ظہور ِ اسلام کا مقدس مرکز ہی۔ اس شہر میں ایک ہی دین اور مذہب کا بول بالا ہی۔ دوسرے کسی مذہب کے پیروکار یہاں نہیں ہیں۔ اس شہر میں کافر کا داخلہ اور اس کی تدفین شرعاً ممنوع ہی۔ ماسوا اشد ضرورت کے یہاں لڑائی کرنا حرا م ہی۔ شکار کرنا بھی قطعی حرام ہی۔شکاری خواہ مکہ کا باشندہ ہو۔ حِل میں رہنے والا ہو یا کسی دوسرے شہر یا ملک کا ہو۔احرام میں ہو یا نہ ہو۔ یہ حکم سب کے لئے یکساں طور پر نافذ ہے ۔ اس شہر کے درخت کاٹنا، یہاں سے مٹی اور پتھر باہر لے جانا بھی حرام ہی۔ یہاں نیکیوں اور بالخصوص نماز کا اجر ایک لاگھ گنا زیادہ ملتا ہی۔دجال کے داخلہ سے یہ شہر محفوظ رہے گا۔یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں انبیاء کرام کی تقریباً تین سو قبریں ہیں۔اسی شہر مقدس میں جنت المعلاء ہے جہاں سے قیامت کے دن ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کئے جائیں گی۔اور ان میں سے ہر ایک آدمی ستر ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گی۔
امام محترم کا تعلق ایسے شہر سے ہے جس کی شان میں اتنی آیات قرآنی نازل کی گئی ہیں کہ کسی اور شہر کی تعریف میںاتنی آیتیںنہیںنازل کی گئیں۔
امام محترم کو005  میں آپ کو دبئی انٹر نیشنل ہولی قرآن ایوارڈ کی جانب سے  سال کی اسلامی شخصیت ،، کے طور پر قرآن اور اسلام کی خدمات کے اعتراف میںایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا اسلام اور مسلمانوں کا پیغام امن ، انصاف ، ہمدر دی وبہی خواہی ہے ، اسلام سب کے لئے رحمت بن کر آیا ہی۔،،
قابل مبارک باد ہیں علماء دیوبند اور خاص کر صدر جمعیۃ العلماء ہند حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم استاد حدیث دارالعلوم دیوبندجن کی انتہک کوششوں سے امام محترم کا سفر ہندطے ہوا۔

No comments:

Post a Comment