Friday, March 25, 2011

  حرم اور امام حرم
مولانا عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی

نمبر۶۲، ہینس روڈ ،تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051
E-mail:  
salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
……………………………………………………………………

وہ مقدس اور پاکیزہ گھر جس کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف ہی۔اپنے مجد و
شرف اور عزت و تکریم کے باعث کعبہ،، کے نام سے موسوم ہوا۔ کعب کسی چیز کی سربلدی اور شرافت کے لئے استعمال ہوتا ہی۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اس فرشِ خاکی پر یہ گھر سب سے زیادہ معزز و مکرم ہی۔
قرآن میں اس متبرک و معظم گھر کو مسجد حرام کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہی۔فَوَلِّ وَجہَکَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرام۔ پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔ (سورہ بقرہ:۳۴۱) سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو ایک رات کے اندر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔اسی طرح سورہ مائدہ میں فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کعبہ کوعزت والا گھر بنایا ہی۔ قرآن و حدیث میں میں مختلف جگہ اس کی فضیلت آئی ہے یہاں پراس کا احاطہ کرنا مشکل ہی۔
مکہ مکرمہ کے امام فضیلت الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس اپنے قرآن کی رقت آمیز تلاوت کی وجہ سے سارے عالم میں مشہور و معروف ہیں۔آپ گویا اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو بناسنوار کر خوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔آپ کی پیدائش 1961میں انزا قبیلے میں ہوئی۔آپ کے آباؤ اجداد کا شمار شرفاء لوگوں میں ہوتا ہی۔ آپ کی تعلیم و تربیت ریاض میں ہوئی۔آپ ۲۱ سال کی عمر میں حفظ مکمل کرلئی۔اس بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی اور ام القریٰ یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہیں سے اسلامی شریعہ میں ڈاکٹریٹ کیا۔
امام حرم ، شیخ العرب و العجم ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس صرف مسجد حرم کے امام نہیں بلکہ سارے عالم کے امام ہیں آپ کی امامت میں سارے عالم کے لوگ چاہے وہ گورے ہوں یا کالے ، عربی ہوں یا عجمی، مالکی ہوں یا شافعی ، حنبلی ہوں یا حنفی سبھی آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔آپ ایسی مسجد کے امام ہیںجس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْ مَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ ِاِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘میری اس مسجد میں نماز ادا کرنا،مسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد میں ہزار نماز ادا کرنے سے افضل ہی۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دن رات میں ایک سو بیس رحمتیں کعبہ شریف پر نازل فرماتا ہے جس میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے ، چالیس نماز پڑھنے والوں اور بیس ان لوگوں کے لئے ہوتی ہیں جو صرف کعبہ شریف کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کررہے ہوتے ہیں۔(جامع اللطیف) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کعبۃ اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہی۔
اس عدیم النظیر شہر کا جاہ و جلال اور عظمت در حقیقت اس سادہ و بے نمود مکان کی مرہونِ منت ہی، جس کی صداقت اور حقانیت پر چار ہزار برس کے حوادثات اور انقلابات بھی کوئی دھبہ نہیں لگاسکی۔ چند پتھروں سے چنی ہوئی چاردیواری جو کروڑوں انسانوں کی پرستش گاہ اور قبلہ وجوہ ہے جو نہ صرف زندگی میں قبلہء جاناں ہے بلکہ مرجانے کے بعد بھی منہ اسی کی سمت کیا جاتا ہے اور خداوند تعالیٰ کے جلال اور قدوسیت نے تمام عالم میں صرف اسی کی چھت کو اپنا نشیمن قراردیا ہی۔
 یہ نگری رب کریم کی اس نعمتِ بیکراں پر جس قدر ناز کرے کم ہی۔ کہ اسی کی آغوش میں رحمت ِ کائنات، فخر ِ موجودات ، مولائے کل، ختمِ رسل، حبیب خدا محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ قدس سے جہانِ رنگ و بو میں جلوہ افروز ہوئی۔ پھر اس کی محبت حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے رگ و ریشہ میں ایسی سرایت کر گئی کہ مشرکین کے روح فرساو جاں گداز مظالم کے باوجود اس کی جدائی کا صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ تیرہ سال کی مسلسل جفاکشی اور قریش کے پیہم جو و جفا کے باوجود آپ کے دل میں مکہ مکرمہ چھوڑنے کا خیال تک نہ آیا۔ اس عرصے میں جو کچھ آپ پر بیتی اس کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس دل دوز داستان کو لکھتے وقت قلم لرز جاتا ہی۔ جب سخت نامساعد حالت کے پیشِ نظر اللہ جل جلالہ نے ترکِ وطن کرکے مدینہ طیبہ کو توحید ِ خداوندی اور تبلیغ اسلام کا مرکز بنانے کا حکم دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی تاریکی میں جب کہ ہر سو خاموشی اور سنّا ٹا تھا اس مقدس شہر سے رخصت ہوتے وقت حسرت بھری نگاہوں سے اس کے درو دیوار اور حجرو شجر کو دیکھ کر دردِ دل سے ارشاد فرمایا:  مَا اَطیَبَکَ مِن بَلَدٍ وَّ اَحَبَّکِ اِلَیَّ ، وَلَو لاَ اَنَّ قَومِی اَخرَجُونِی مَا سَکَنتُ غَیرَکِ۔  (مشکوٰۃ)  اے مکہ ! تو کتنا ذی شان شہر ہی۔ اور مجھے کس قدر محبوب و مرغوب ہی۔ اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسری جگہ قیام نہ کرتا۔
حضرت عبد اللہ بن عدی بن الحمراء ؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ پر سوار الحزورہ کے پاس دیکھا(الحزورہ حرم شریف کے دروازوں میں سے ایک دروزہ ہی) آپ مکہ مکرمہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمارہے تھی۔ ’’وَاللّٰہِ ِاِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ ِاِلَی اللّٰہِ  وَلَوْلَا أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ ‘‘( اللہ کی قسم تم اللہ کی سب سے اچھی سرزمین ہواور اللہ کی سب سے پسندیدہ بھی اور اگر میں وہاں سے نہیں نکالا جاتا تو نہ نکلتا)۔(سنن الترمذی)
امام محترم کی نسبت ایسے منبرو محراب سے ہے ۔ جہاں سے اسلام کی کرنیں طلوع ہوئیں، جہاں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا اور سارے عالم میں پھیل گیا۔یہ وہ مقام ہے جہاں آپؐ کے اصحاب ، تابعین و تبع تابعین نے امامت کے فرائض انجام دیئی۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے سارے عالم میں امن کا پیغام دیا جاتاہی۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روئے زمیں کے تمام شہروں پر مکہ معظمہ کو جو فضیلت ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔زمانہ گواہ ہے کہ اس حال میں اس قدر لاتعداد مخلوق پورے عالم میں مکہ معظمہ کے سوا کہیں بھی جمع نہیں ہوتی اور انشاء اللہ قیامت تک ہر سال اسی جو ش و خروش ، جذبہء اور ولولہ کے ساتھ فرزندانِ توحید یہاں جمع ہوتے رہیں گی۔
یہ معزز شہر مہبط وحی، نزول قرآن مجید اور ظہور ِ اسلام کا مقدس مرکز ہی۔ اس شہر میں ایک ہی دین اور مذہب کا بول بالا ہی۔ دوسرے کسی مذہب کے پیروکار یہاں نہیں ہیں۔ اس شہر میں کافر کا داخلہ اور اس کی تدفین شرعاً ممنوع ہی۔ ماسوا اشد ضرورت کے یہاں لڑائی کرنا حرا م ہی۔ شکار کرنا بھی قطعی حرام ہی۔شکاری خواہ مکہ کا باشندہ ہو۔ حِل میں رہنے والا ہو یا کسی دوسرے شہر یا ملک کا ہو۔احرام میں ہو یا نہ ہو۔ یہ حکم سب کے لئے یکساں طور پر نافذ ہے ۔ اس شہر کے درخت کاٹنا، یہاں سے مٹی اور پتھر باہر لے جانا بھی حرام ہی۔ یہاں نیکیوں اور بالخصوص نماز کا اجر ایک لاگھ گنا زیادہ ملتا ہی۔دجال کے داخلہ سے یہ شہر محفوظ رہے گا۔یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں انبیاء کرام کی تقریباً تین سو قبریں ہیں۔اسی شہر مقدس میں جنت المعلاء ہے جہاں سے قیامت کے دن ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کئے جائیں گی۔اور ان میں سے ہر ایک آدمی ستر ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گی۔
امام محترم کا تعلق ایسے شہر سے ہے جس کی شان میں اتنی آیات قرآنی نازل کی گئی ہیں کہ کسی اور شہر کی تعریف میںاتنی آیتیںنہیںنازل کی گئیں۔
امام محترم کو005  میں آپ کو دبئی انٹر نیشنل ہولی قرآن ایوارڈ کی جانب سے  سال کی اسلامی شخصیت ،، کے طور پر قرآن اور اسلام کی خدمات کے اعتراف میںایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا اسلام اور مسلمانوں کا پیغام امن ، انصاف ، ہمدر دی وبہی خواہی ہے ، اسلام سب کے لئے رحمت بن کر آیا ہی۔،،
قابل مبارک باد ہیں علماء دیوبند اور خاص کر صدر جمعیۃ العلماء ہند حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم استاد حدیث دارالعلوم دیوبندجن کی انتہک کوششوں سے امام محترم کا سفر ہندطے ہوا۔

Thursday, March 24, 2011

معاشرہ میںقرآن کا پیدا کردہ انقلاب

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکی رشدوہدایت صلاح وفلاح کامیابی وکامرانی عزت و وقار،سکون وچین راحت واطمینان کے لئے ایسے کلام کوجو  لَارَیبَ فِیہِ ،  ھُدی لِلمُتَّقِین ، ھُدی لِلنَّاس ِ وَ بَیِّنٰت مِنَ الھدیٰ و الفُرقان ہے  جو  بَینَ الحَقِّ وَالَباطل ہی، جس کا پڑھنا پڑھاناخیرکثیرکاسبب ہے جسے دیکھنا عبادت ہے ۔جس کی تلاوت وجہ حلاوت ہے ،جس پرعمل سبب ِدخولِ جنت ہی۔ جسے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ترین بندے سیدالمرسلین، خاتم النبیین، شفیع المذنبین ، امام الاولین والآخرین ، وجہ تخلیقِ کائنات ،جن کے اخلاق قرآن،جن کی محبت شرط ِتکمیل ِایمان،جن کی اطاعت اللہ کی اطاعت،صاحب مقام محمودجناب محمد الرسول ؐپرنازل فرمایا۔
نزولِ قرآن سے قبل عرب معاشرہ مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی ہر لحاظ سے ظلمت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوباہوا تھا۔ ہر طرف شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کے مال و عزت کے لٹیرے تھی۔ انتقام در انتقام کے لئے طویل جنگیں لڑی جاتیں ، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا عام سی بات تھی۔زیادہ سے زیادہ عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات کو باعثِ فخر سمجھاجاتا۔ شراب، جوا اور زنا ان کے زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھی۔ عریانی کا یہ عالم تھا کہ مرد اور عورتیں عریاں ہوکر بیت اللہ شریف کا طواف کرنا باعثِ ثواب سمجھتے ، مسکینوں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ ان حالات میں جب قرآن مجید کا نزول ہوا تو محض چند سالوں کے مختصر عرصہ میں قرآنی تعلیمات نے حیرت انگیز طور پر عربوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔
جو لوگ اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کرنا معمول کی بات سمجھتے تھے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اعترافِ جرم کرتے اور اپنے کئے پر آنسو بہاتی۔ ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی، میں اسے بلا تا وہ دوڑ تی میرے پاس آتی۔ ایک روز میں نے اسے بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا، راستہ میں ایک کنواں آیا تو میں نے اسے اس میں دھکا دے دیا۔ اُس کی آخری آواز جو میرے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی  ہائے ابّو، ہائے ابّو،، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگی، لوگوں نے اس آدمی کو بات کرنے سے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اسے مت روکو جس بات کا اسے شدید احساس ہے اس کے بارے میں سوال کرنے دو واقعہ سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا ہی، اب نئے سرے سے زندگی کی ابتدا کرو،، ۔ (دارمی)
جب ہم عرب کے تاریک ترین دور کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے پیچ و خم پر نظر ڈالتے ہیں تو جو بات سب سے پہلے  ابھر کر آتی ہے وہ ہے علم ،،اور قلم ،،ہے  اس تاریک ترین دور میں جس چیز نے انقلاب برپا کیا وہ اقراء کی تعلیم تھی ،علم بالقلم کی آواز تھی وہ جاہل قوم جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے ، جب اقراء کی آواز باز گشت ان کے سماع کو ٹکرائی تو وہ چوکنے ہوگئے اور ایسا دیکھنے لگے جیسے کوئی خطرے کی گھنٹی بج رہی ہو سارے لوگ اس طرف متوجہ ہونے لگے کہ یہ کیسی صدا ہے اس آواز میں جادوگری ہے یہ تو کسی اور کا ہی کلام ہے ۔یہ کیا تھا یہ اقراء تحریک،، کی آواز تھی یہ علم بالقلم،، کی صدا تھی ۔ یہ ایک ایسی شمع علمی تھی جس کی روشنی ہر سو پھیلی اور پھیلتی چلی جارہی ہے ۔جس کے نتیجے میں انسانیت اورشرافت کی تقدیر چمکی ، علم و جستجو کے چشمے پھوٹے ،حکیموں ، طبیبوں اور داناؤں کو حکمت و دانائی کے پھول سے دامن کو بھرنے کا موقع ہاتھ آیا۔ بلکہ انہوں نے اس معاملہ میں قرآن کے گل حسن کو اتنا بسیار پایا کہ وہ اس کا احاطہ نہ کرسکے اور اپنی نگہ کی تنگ دامنی کی شکایت پر مجبور ہوئے ۔اور پھر سب سے بڑھ کر اس کتاب ہدایت سے  یہ ہواکہ   ؎
خو د نہ تھے جو راہ پراوروں کے ہادی بن گئے
گرچہ یہ مصرع صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں شاعر نے کہاہے مگر اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ قرآن کے اندر وہ جادو بیانی و طلاقت لسانی ہے کہ بڑے سے بڑ ے دانشور اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا قصہ کافی مشہور ہے کہ جاتے ہیں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے اور خود ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکر واپس آتے ہیں۔
قرآن کیا ہی؟ 
قرآ ن وہ مقدس کتاب ہے جس کے اندر تمام علوم و معارف کو سمیٹا گیا ہے ۔ قرآ ن تبیان لکل شئی ہے ۔ قرآن وہ کتاب مقدس ہے جو آقائے  مدنی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا جس کا ایک ایک حرف من وعن محفوظ ہی۔قرآن وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لے رکھی ہے اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ  قرآن ہی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب مقدس ہی، قرآن وہ کتاب ہدایت ہے کہ جس کے سامنے پڑھی جائے جابر سے جابر ظالم سے ظالم متأثر ہو ئے بغیر نہیں رہتی۔ قرآ ن وہ کتاب ہے جو ہر مؤمن ومسلم کے سینے میں محفوظ ہے ، قرآن وہ کتاب ہے جو دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی ، اور بڑی سے بڑی چیزوں کی مثال بیان کرنے میں ہیچ محسوس نہیں کرتی ۔
اِنَّ  اللّٰہَ  لَا یَستَحیٖٓ اَن یَّضرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَۃً فَمَا فَوقَھَا قرآ ن وہ کتاب ہدایت ہے جو شجرو حجر ، انس و جن، دریاو سمندر، آسمان و زمین کا ذکر کرتاہے ۔قرآ ن وہ مقدس کتاب ہے جو تمام انسانوں کا رشتہ ایک خدا سے جوڑتاہے قُل ہُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔  قرآن ہی وہ مقدس کتاب ہے جو تمام رازہائے سر بستہ کو کھول کھول کر واضح بیان کرتاہے ، قرآن ہی وہ مقدس کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔قرآن ہی وہ مقدس کتاب ہے جس نے دریا کو کوزے میں بند کردیا۔بقولِ شاعر:   جَمِیعُ العِلمِ فِی القُرآنِ لٰکَن  
                        تَقَاصَرَ عَنہُ اَفہَامُ الرِّجَالِ
کہ قرآن کریم کے اندر تمام علوم ہیں لیکن لوگوں کی سمجھ اس سے قاصر ہی۔
قرآن کریم کا مقصد کیا ہی؟ 
قرآن کا اولین مقصد غفلت میں ڈو بی ہوئی انسانیت کو بیدارکرناہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ہٰذا بَلٰغٌ لّلنَّاسِ وَ لِیُنذَرُوا بِہ وَ لِیَعلَمُوا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہ ٌ وَاحدٌ وَلِیَذَّکَّرَ اُولُوالاَلبَابِ۔
 یہ قرآن ایک پیغام ہے تمام انسانوں کے لئے اور اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو خبر دار کردیاجائے اور وہ جان لیں کہ وہی بس ایک خدا ہے اور جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ یاد دہانی حاصل کریں۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی فرمایا:
کِتَابٌ اَنزَلنَاہُ اِلَیکَ لِتُخرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّورِ بِاِذنِ رَبِّہِم اِلٰی صِرَاطِ العَزِیزِ الحَمِیدِ۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قرآن ایک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ، اس راستے کی طرف جو غالب اور تعریف کے لائق ذات کا راستہ ہی۔
عزیزو! قرآن، تدبر ، تفکر کی طرف دعوت دیتا ہی۔کبھی اعلان کرتا ہے  اَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ القُرآن ، تو کبھی صدا دیتا ہے لَعَلَّکُم تَتَفَکَّرونَ تو کبھی پکارتا ہے ہُدیً للِنَّاس ۔
 آج کے اس تاریک ترین دور میں صرف اور صرف قرآن سے ہی ہدایت حاصل کی جاسکتی ہی۔ اسی قرآن کے ذریعے امت کے اندر جو زوال ہے اس کو دور کیا جاسکتاہی۔ اسی قرآن سے پہلے بھی امت کی اصلاح ہوئی تھی اور آج بھی اسی سے ہوسکتی ہی۔ اِنَّ  ھٰذَا القُراٰنَ  یَھدِی لِلَّتِی  ھِیَ اَقوَمُ ۔
قارئین کرام ! قرآن مجید کا سیکھنا چاہے لفظاً ہو یا معناً۔ لفظا ًکا مطلب قرآن کا دیکھ دیکھ پڑھنا جسے ناظرہ کہا جاتاہی۔ معناً کا مطلب ہے قرآن سمجھ کر غورو فکر کرکی، ترجمہ ، مفہوم، مطالب سب میں غور و فکر کرنا۔اور اس کے بعد اس پر عمل کرنا۔
 اللہ رب العالمین ہماری حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ارشاد فرماتاہے : وَلَقَد  یَسَّرنَا  القُراٰنَ لِلذِّکرِ  فَھَل  مِن  مُّدَّکِر
ہم نے قرآن کریم کو انتہائی آسان کردیا ہے ، ہے کوئی یاد کرنے والا ! ہے کوئی غورو فکر کرنے والا ۔ ہے کوئی نکتہ حاصل کرنے والا۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :  خَیرُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ
 تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور سکھائی،، (بخاری) اور دوسری جگہ تلاوت قرآن کے تعلق سے فرمایا:
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں،،  (ترمذی)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اُتلُ مَااُوحِیَ اِلَیکَ مِنَ الکِتَاب۔
تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہی۔
اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کی تلاوت باعث ثواب ہے ۔ اس لئے قرآن کریم کی تلاوت کو بے وقعت قراردیا جائی۔ یہ قرآن و حدیث میں تلاوت اور حفظ قرآن کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے اس کے سراسر خلاف ہی۔
قرآن کریم کی تلاوت کا پورا پورا فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب اس کو اس طرح تلاوت کی جائے جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے (یَتلُونَہ حَقَّ تِلاَوَتُہ)یعنی سب سے پہلے آدمی کا اس پر ایمان ہو، پھر اسے سمجھنے کی کوشش کرے اس میں غورو فکر کری،اس سے نصیحت پذیر ہو اور اس کی رہنمائی قبول کرتے ہوئے اپنی عملی زندگی کو اس کے مطابق بنائے ۔
قوموں کاعروج و زوال
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ِاِنَّ اللَّہَ یَرفَعُ بِہَذَا الکِتَابِ أَقوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
 اللہ تعالیٰ اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔ (مسلم: 2102 )
یہ حدیث بہت ہی واضح ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے آج احادیث و قرآن کو صرف ایک رسمی کتاب بناکر رکھ دیا ہی۔اس کو سمجھنے کی ہم نے کوشش ہی نہیں کیا۔اس لئے ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ اس قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لیں اسی میں ہماری کامیابی و کامرانی ہی۔ اسی میں ہماری سربلندی وعزت ہی۔ اگر ہم اس قرآن مقدس کو فراموش کردیتے ہیں ، بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور اس کو صرف تبرک سمجھ کر اٹھاتے ہیں تویاد رکھیں یہ قرآن ہم کو بھی فراموش کردے اور ہم کو ذلت کے عمیق غار میں لے جاکر پھینک گا۔ ہمارا نام و نشان مٹادے گا۔ آج دنیا میں جس نے اس کو اپنا یااس کو بلندی ملی، کامرانی ملی، عزت و شہرت ملی۔ اور جس قوم نی، جس شخص نی، جس معاشرے نے اس کو نظر انداز کردیا ان کا وجود بھی آج باقی نہیں ہی۔اس کو دنیا ایسے بھلادی گویا کی کوئی تھاہی نہیں۔
قرآن کی اہمیت و فضیلت احادیث میں متعدد جگہوں پر آئی ہے اور باقاعدہ احادیث کی کتابوں میں قرآن کی فضیلت کا مستقل باب ہے ۔ اسی کے پیش نظر مسلم شریف کی چنداحادیث بیان کرتاہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 أَیُّکُم یُحِبُّ أَن یَغدُوَ کُلَّ یَومٍ ِاِلَی بُطحَانَ أَو ِاِلَی العَقِیقِ فَیَأتِیَ مِنہُ بِنَاقَتَینِ کَومَاوَینِ فِی غَیرِ ِاِثمٍ وَلَا قَطعِ رَحِمٍ فَقُلنَا یَا رَسُولَ  اللَّہِ نُحِبُّ ذَلِکَ قَالَ أَفَلَا یَغدُو أَحَدُکُم ِاِلَی المَسجِدِ فَیَعلَمُ أَو یَقرَأُ آیَتَینِ مِن کِتَابِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ خَیرٌ لَہُ مِن نَاقَتَینِ وَثَلَاثٌ خَیرٌ لَہُ مِن ثَلَاثٍ وَأَربَعٌ خَیرٌ لَہُ مِن أَربَعٍ وَمِن أَعدَادِہِنَّ مِن الِاِبِلِ(مسلم: 2103)
O تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے (یہ دونوں مدینہ کے بازار تھی) اور وہاں سے بڑے بڑے کوہان کی دو اونٹنیاں بغیر کسی گناہ کی اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کری، لائے تو ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ا! ہم سب اس کو چاہتے ہیں۔ آپ ا نے فرمایا کہ پھر تم میں سے ہر ایک مسجد کو کیوں نہیں جاتا اور کیوں نہیں سیکھتا  یا پڑھتا اللہ کی کتاب کی دو آیتیں، جو اس کیلئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیںہوں، اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔دوسری جگہ ارشاد ہی:
 مَثَلُ المُٶمِنِ الَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ مَثَلُ الأُترُجَّۃِ رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعمُہَا طَیِّبٌ وَمَثَلُ المُٶمِنِ الَّذِی لَا یَقرَأُ القُرآنَ مَثَلُ التَّمرَۃِ لَا رِیحَ لَہَا وَطَعمُہَا حُلوٌ وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ مَثَلُ الرَّیحَانَۃِ رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعمُہَا مُرٌّ وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِی لَا یَقرَأُ القُرآنَ کَمَثَلِ الحَنظَلَۃِ لَیسَ لَہَا رِیحٌ وَطَعمُہَا مُرٌّ(مسلم)
 قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس کا مزا بھی اچھا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں بُونہیں مگر مزا میٹھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال پھول کے مانند ہے کہ اس کی بُو اچھی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہی۔ اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن (کوڑ تنبہ) کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑوا ہی۔
ایک اور جگہ ارشاد ہی: المَاہِرُ بِالقُرآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الکِرَامِ البَرَرَۃِ َالَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ وَیَتَتَعتَعُ فِیہِ وَہُوَ عَلَیہِ شَاقٌّ لَہُ أَجرَان۔
 قرآن کا مشاق (اس سے حافظ مراد ہو سکتا ہے جو کہ عامل ہو) ان بزرگ فرشتوں کیساتھ ہے جو لوحِ محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور وہ اس کے لئے مشقت کا باعث ہے تو اس کیلئے دو گنا ثواب ہی۔ (مسلم: 2105)
ایک جگہ آپ نے فرمایا:   لَا حَسَدَ ِاِلَّا فِی اثنَتَینِ رَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ القُرآنَ فَہُوَ یَقُومُ بِہِ آنَاء َ اللَّیلِ وَآنَاء َ النَّہَارِ وَرَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ مَالًا فَہُوَ یُنفِقُہُ آنَاء َ اللَّیلِ وَآنَاء َ النَّہَارِ(مسلم: 2108)
 دومَردوں کے سوا اور کسی پر رشک جائز نہیں ہی۔ ایک تو وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن عنایت کیاہو اور وہ اس دن رات پڑھتا ہو (اور اس پر عمل کرتا ہو) دوسرے وہ جسے  اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اسے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہو۔
ان تمام احادیث سے قرآن کریم کی فضیلت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہی۔
 قرآن کا اثر قوموں پر کیا ہوا
قرآن کی تعلیمات نے معاشرے میں برسوں سے چلی آرہی خودغرضی، بے رحمی اور لوٹ گھسوٹ کو چندسالوں کی مختصر مدت میں ہمدردی، خیرخواہی، ایثار اور قربانی کے انمول سانچے میں ڈھال دیا۔ جنگ یرموک میں چند صحابہ شدید گرمی میں زخموں سے چور شدت پیاس سے تڑپ رہے تھے کہ اتنے میں ایک مسلمان پانی لے کر آیا اور زخمیوں کو پلانا چاہا۔ پہلے نے کہا دوسرے کو پہلے پلادو، دوسرے کو پلانا چاہا تو اس نے کہا تیسرے کو پہلے پلادو، پانی پلانے والا ابھی تیسرے تک نہیں پہنچا تھا کہ پہلا شہید ہوگیا تب وہ دوسرے کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنے مالک کے حضورپہنچ چکا تھا اور جب تیسرے کے پاس آیا تو وہ بھی پانی پئے بغیر اپنے اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ (ابن کثیر)
یہ کیا تھا ؟ یہ قرآن کی دولت تھی، یہ اقرأ کی تحریک تھی، یہ علم بالقلم کی صدا تھی وہی جو پہلے دوسروں کے لئے خونخوارتھے قرآن پڑھنے کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی ، ان کے اندر قربانی کا وہ جذبہ موجزن ہوگیا کہ وہ ایثار و قربانی ، ہم دردی و بہی خواہی کے پیکر بن گئی۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے انتہائی مختصر مدت میں عقیدہء توحید کے ساتھ ساتھ سیرت اور کردار کے اعتبار سے ایک عظیم الشان معاشرہ قائم کردیاجس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ قرآنی تعلیمات نے تئیس برس کی قلیل مدت میں جو سوسائٹی قائم کی اس کا ہر ایک فرد ایک جماعت تھا، اس کا ہر ایک فرد ایک انجمن تھا، اس کا ہرایک فرد ایک قوم و ملت تھا۔وہ کونسی جماعت تھی، وہ صحابہ ء کرام کی جماعت تھی۔ جو جدھر گئے اسلام کا پرچم بلند کئی، دعوت ِ اسلام کو آفاقی بنادیا اور حق کا پیغام سارے عالم میں پھیلادیا وہ اس حدیث سے بخوبی واقف تھے فَلیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغَائبَ ، اور بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوآیۃً۔

Wednesday, March 23, 2011

اللہ کے پیارے نبی    
کے ہر ارشاد میں  ہزاروں حکمتیں پوشیدہ ہیں

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی 
 ڈائرکٹر اسکالرس ملٹی سروسز  
نمبر۶۲، ہینس روڈ ،تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051
E-mail:  
salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
………………………………………………………………………………………
پیارے بچو! آج ہم تمھیں سیرت النبی  ؐ کے خاص موقع پر اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث سناتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں میل و محبت صرف اللہ کے لئے رکھّو۔اور اگر کسی سے بغض و نفرت کرو تو وہ بھی اللہ ہی کے لئے کرو۔ اپنی ذاتی کوئی غرض اس میں شامل نہ ہو.....ہمارے نبی کے چچا زاد بھائی، امیر المومنین حضرت علی ؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے ایک موقع پر عرب کے مشہور جرجا نامی پہلوان کو مقابلہ میں پچھاڑ دیا۔
یہ وہ اسلام کا دشمن تھا جس نے مسلمانوں کو سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔جب اس پہلوان کا مقابلہ حضرت علیؓ سے ہوا تو یہ ناکام ہوا حضرت علیؓ اس دشمنِ اسلام کے سینے پر چڑھ گئے چاہا کہ تلوار سے اس کا کام تمام کردیا جائے تو اس بدبخت نے حضرت علیؓ کے چہرے پر تھوک دیا۔آپ فوراً اس کے سینہ سے اُتر گئی۔ اور اس کو چھوڑ دیا۔ اس پر اس پہلوان کو بڑا تعجب ہوا۔ کہنے لگا کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا کہ جس نے اپنے دشمن کو مقابلہ میں ہرادیا ہو اور اس نے اس کو زندہ چھوڑ دیا ہو۔اور جب کہ اس کے دشمن نے اپنے مدّ مقابل کے چہرے پر بھی تھوک دیاہو تب تو غصہ اور تیز ہو جاناچاہئے تھا اور اپنے اس دشمن کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہئے تھا۔ حضرت علیؓ سے جب اس پہلوان نے یہ سوال کیا تو آپ نے اللہ کے پیارے نبی ؐ کا ارشاد سنادیا۔ کہ میں نے تجھے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن ہونے کی وجہ سے پچھاڑا تھا۔ اپنی اس میں کوئی غرض شامل نہیں تھی اور قریب تھا کہ میں اپنی تلوار سے مارڈالتا لیکن تونے میرے چہرے پر تھوک دیا تو مجھے کچھ غصہ آگیا۔ اس حال میں تجھے مارڈالنا میرا یہ عمل خالص اللہ کے لئے نہ ہوتا بلکہ میر ے نفس کا بھی اس میں حصہ شامل ہوجاتا۔
خطرہ یہ تھا کہ کل قیامت میں جب میری اللہ کے سامنے حاضری ہوتی تو مجھ سے یہ سوال کیا جاسکتا تھاکہ اے علی ؓ تونے اپنے دشمن کو محض ہمارے لئے تو نہیں قتل کیا۔ بلکہ تیرے نفس کا بھی اس میں حصہ شامل تھا۔ تو میں اپنے مالک کے سامنے کیا جواب دیتا۔ اللہ کے پیارے نبی ؐ نے ہمیں یہی اخلاقی سبق پڑھایا ہے کہ محبت کرو تو اللہ کے لئے اور کسی سے نفرت کرو تو محض اللہ ہی کے لئی۔ جب حضرت علیؓ کی زبانِ مبارک سے اس دشمن اسلام جرجا پہلوان نے یہ کلمات سنے تو اس کے دل میں فوراً اسلام کی محبت اتر گئی۔ وہ حضرتِ علیؓ کے دستِ حق پرست پر ایمان لے آیا۔ اور اسلام میں داخل ہوکر.....اس نے اسلام کے لئے اپنی بے حد قربانیاں دیں۔ بچو اللہ کے اس پیارے نبی ؐ کے پاک ارشاد سے اور حضرت علیؓ کے اس تعجب خیز واقعہ سے ہمیں سبق لینا چاہئے کہ اسلام نے کیسی اچھی تعلیم دی۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اسلام اخلاق کی تلوار سے پھیلا ہی۔ ظاہری تلوار سے اسلام ہرگز نہیں پھیلا۔
جب حضرت علیؓ کی تلوار نیام سے باہر تھی تو اس پہلوان نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ حضرت علیؓ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور جب حضرت علی ؓ کی تلوار نیام کے اندر ہوگئی تب سیدنا حضرت علی ؓ کے اخلاقی برتاؤ کو دیکھ کر اس دشمنِ اسلام نے اسلام کو قبول کیا۔
جس نے سینکڑوں صحابہ ؓ کو شہید کرکے مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچائی تھیں۔اس واقعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ اللہ کے پیارے نبی ؐ کے ہر ارشاد میںہزاروں حکمتیںپوشیدہ ہیں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ محبت کرو تو اللہ پاک کے لئے اور کسی سے بغض ونفرت کرو تو محض اللہ ہی کے لئی۔اپنی کوئی ذاتی غرض شامل نہ ہو۔ اس واقعہ سے ہمیں بھی اخلاقی سبق لینا چاہئے کہ ہم بھی اللہ کے پیارے نبی ؐ کے اس پاک ارشاد پر عمل کریں تاکہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو۔ اور اپنی رحمتوں کی بارش ہم پر بھی برسائی۔

Urdu Islamic Book World: دہشت گردی اور شریعتِ اسلام

Urdu Islamic Book World: دہشت گردی اور شریعتِ اسلام

دہشت گردی اور شریعتِ اسلام


دہشت گردی اور شریعتِ اسلام
عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی،
  ڈائرکٹر اسکالرس ملٹی سروسز  
نمبر۶۲، ہینس روڈ ،تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051
E-mail:   salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس وقت ذرائع ابلاغ میںسب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا موضوع اگر کوئی ہے تو وہ بلا شبہہ دہشت گردی کا ہی۔اور کیوں نہ ہو؟ یہ بروقت ایک عالمی مسئلہ ہے اور عالم انسانیت کو در پیش مسائل میںسب سے اہم یہی ہی۔ دنیا کا ہر ملک اس سے کسی نہ کسی درجہ میں متاثر ہے خواہ اس کا تعلق ترقی یافتہ ممالک سے ہو یا ترقی پذیر ممالک سی،پھر بھی موجودہ حالات کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر مسلم ممالک ہی اس کا زیادہ وسیع پیمانے پر شکار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
دہشت گردی کانہ کوئی ملک ہے نہ وطن،نہ کوئی دین ہے نہ مذہب ،لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی کم زوری ، آپسی اختلافات اورمؤثر ذرائع ابلاغ سے محرومی کا فائدہ اٹھاکر دانستہ طور پر،یا اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کے نتیجے میں اور گم راہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر نادانستہ طورپر ،اسلام اور مسلمانوں کے سر دہشت گردی کا الزام تھوپا جاتا ہی۔مندرجہ ذیل سطور میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اختصار کے ساتھ حقائق سے پردہ اٹھاکر شرعی نقطئہ نظر کی وضاحت کی جائی:
mدہشت گردی کی تعریف:دہشت گردی انگریزی کے لفظ Terrorismکا ترجمہ ہے ۔ عربی میں اسی’’ ارھاب ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ اس لفظ کا صحیح ترجمہ نہ ہونے باوجود زبان زد ہوچکا ہے اور عربی زبان کی اکیڈمی نے بھی اسے تسلیم کرلیاہے ۔errorism کا  مناسب ترجمہ لفظ ’’ارعاب‘‘ سے کیا جاسکتاہے جو کہ صرف مادی خوف دلانے پر دلالت کرتاہے جب کہ ارھاب یا رھب عام طور ایسے ڈرکے معنی میں استعمال ہوتاہے جس میںساتھ ساتھ احترام کی کیفیت بھی پائی جائے ۔قرآن مجیدمیں ارھاب ڈرانے کے معنی میں استعمال ہواہی، اللہ نے دشمنوں کے لئے عسکری قوت اور جنگی سازو سامان کی تیاری کے ذریعے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
 ’’وأَعِدُّوْا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَّمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہِ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ‘‘
(اور تم ان کے مقابلہ کے لئے طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کوتیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو )۔
دہشت پسندی کی اصطلاحی تعریف میں شدید اختلاف ہی، اور اس کی کوئی ایسی جامع تعریف جو سب کے لئے قابل قبول ہو مشکل بھی ہے اس لئے کہ ایک کی نظر میں اگر کوئی شخص یا تنظیم یا ملک دہشت پسند ہے تو دوسرے کی نظرمیں وہی شخص مجاہد آزادی یا قومی ہیرو، وہ تنظیم قومی سلامتی یا حقوق کی بازیابی کا واحدحل ،اور وہ ملک امن و سلامتی کا سب سے بڑا علم بردار ہے ۔مختلف عالمی اداروں نے جس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے ،اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اس کے مفہوم کی وضاحت کی ہے ،لیکن اسلامی فقہ اکیڈمی کی بیان کردہ تعریف طویل ہونے کے باوجود صحیح تر معلوم ہوتی ہی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دہشت گردی ،انسانوں کے جان و مال ، دین و عقل اور عزت وآبروپر ،خوف و ہراس اور دہشت پھیلانے کے لئے ہر وہ ظلم و زیادتی ہے جس کا ارتکاب افراد ، گروہ یا ممالک ،مجرمانہ کاروائیوں کے ذریعے کرتے ہیں؛ تاکہ اپنے سیاسی، اعتقادی اور نظریاتی مقاصد کی تکمیل میں کامیا ب ہو سکیں۔اس ظلم و زیادتی میں ہر طرح کاتشدد و ضرر رسانی ، مسلح ڈاکہ زنی ،زور و دھمکی ، قتل و غارت گری ،خاص و عام املاک کی تباہی،قدرتی وسائل اور ماحولیات کی بربادی  وغیرہ شامل ہی۔
اس تعریف سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اپنے ملک و وطن سے غیر ملکی غاصبانہ قبضہ ہٹانے اور آزادی کے حصول کے لئے مسلح جدو جہد دہشت گردی کا حصہ نہیں ہے ، بلکہ انسان کا فطری اور آئینی حق ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ نے بھی اپنے دستور اور قراردادوں کے ذریعے دی ہے ۔
تاریخی پس منظر:  دہشت پسندی بحیثیت نظریہ، انقلاب فرانس کے دوران سن۳۹ـ۴۹۷۱ ء کے دوران وجودمیں آیا،جس سے مراد ایک ایسے نظام کا فروغ تھا جو دہشت پر مبنی ہو۔یعنی اس کی پیدائش اور اٹھان یورپی ذہن و فکر کی مرہون منت ہی، اور یہ حقیقت خود بخود، ان جھوٹے اور بے بنیاد خیالات کی نفی کرتی ہے جو اس کا تعلق اسلام سے جوڑنے کی بے جاسعی کرتے ہیں۔لیکن دہشت پسندی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں ہمیشہ ہی موجود رہا ہی۔اس کا آغاز انفرادی طور پر قابیل سے ہوا ؛کیونکہ اس نے اپنے بھائی ہابیل کو ظلما قتل کرکے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قتل جرم کا ارتکاب کیا۔ اس کا یہ عمل بلا شبہ دہشت گردی کے قبیل سے تھا ۔
Nجہاں تک اجتماعی دہشت گردی کی بات ہے تو اس سلسلہ میں ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کا آغاز سیکاری ( sicarri)سے ہوا جو یہودیوں کی انتہائی منظم جماعت تھی، انہوں نے پہلی صدی عیسوی میں سن ۶۶سی۳۷ء کے دوران فلسطین میں رومیوں اور ان ہم نواؤں کے خلاف زبردست دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اس طرح کہ معصوموں کا بڑے پیمانہ پر قتل عام کیا ،حکام کی رہائش گاہیں منہدم کردیں، سرکاری کاغذات کو تہس نہس کر دیا ،غلے کے گودام کو آگ لگا دی ، آب رسانی کے نظام کوتباہ کر دیا۔ان کی دہشت گردی کا شکار غیر یہودی ہی نہیں بلکہ وہ یہودی بھی بنے جو اس دہشت گردی کے حق میں نہیں تھی۔
ساتویں صدی عیسوی کے ہندوستان میں ہندؤوں کا ٹھگی( Thuggee) نامیفرقہ ،مذہبی رسومات کی ادائیگی، دہشت گردی کے ذریعے کیا کرتا تھا ، وہ اس طرح کہ اپنے دیوتا کالی کو قربانی پیش کرنے کے لئے راہ گیروں اور مسافروں کا سر قلم کیا کرتاتھا۔
عہد وسطی میں فاتیکان سے تعلق رکھنے والے عیسائی پیشوائوں نے کلیسا کے اقتدار اور دبدبے کو مضبوط کرنے کے لئے دہشت گردی کو اپنایا، اس سلسلہ میں پوپ پیوس ۰۱،پوپ جریگوری۳۱ اور پوپ گوپس۵ کے اسماء قابل ذکر ہیں کہ انھوں نے اپنے مخالفین کے صفایا کے لئے معصوموںکا بڑے پیمانہ پر قتل عام کرایا۔
           
سولہویں صدی عیسوی میں ہسپانویوں نے ریڈ انڈین قوموں کی جس وحشت و بربریت کے ساتھ نسل کشی کی وہ دہشت گردی کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہی۔
انیسویں صدی کے اواخر میں روس کی سوشلسٹ انقلابی پارٹی نے دہشت گردی کے نت نئے طریقے اپنائے ۔
 مسلم دورِحکومت میں خوارج کی تحریک ،فرقہ باطنیہ اوراس کی ’’حشاشین ‘‘ (افیمچیوں کا گروہ) نامی مشہور جماعت قابل ذکر ہے کہ انھوں نے اپنے خاص مقاصد کی تکمیل کے لئے دہشت پسندی کو وسیلہ کے طور پر اختیار کیا ۔اسی طرح صلیبی جنگ جو عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر مسلط کی گئی وہ بھی دہشت گردی کا حصہ تھی ۔
دہشت گردی کے حوالے سے بیسویں صدی ایک یادگار صدی ہے کہ اس میں امن، سلامتی ، انسانی حقوق کا تحفظ وغیرہ کے زبردست نعروں کے درمیان یہودیوں کی جانب سے فلسطین میں دہشت گردی کے نئے دور کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے اس طرح عیسائیوں کی جانب سے بوسنیا اور کوسوو میں دہشت گردی کی بد ترین مثالیں قائم کی گئیں جو انسانی تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔
۱۱ ستمبر۱۰۰۲ ء کونیو یارک امریکہ میں ہونے والا واقعہ یقینا دہشت گردی کی ایک بڑی کاروائی کے نتیجے میں پیش آیا۔ اس کے اصل مجرموں کے بارے میں کوئی تحقیقی پورٹ تو آج تک سامنے نہ آسکی، لیکن اس کی قیمت مسلم دنیا تا حال چکائے جارہی ہی۔
دہشت پسندی کی قسمیں:  دہشت پسندی کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں لیکن واشنگٹن امریکہ میں ۶۷۹۱ء میں دہشت پسندی پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں اس کی جو شکلیں متعین کی گئی ہیں وہ اس اعتبار سے کافی جامع ہے کہ اس میں اس کی اکثر صورتیں آگئی ہیں ، چنانچہ اس میں حسب ذیل شکلیں بیان کی گئی ہیں:   ۱۔کسی خاص نظریہ کو پھیلانے کے لئے دہشت گردی۔۲۔قومی مصلحت کے تحت دہشت گردی۔ ۳۔ دینی ،نسلی یا لسانی بنیاد پر دہشت گردی۔ ۴۔نفسیاتی مریض کی دہشت گردی۔
دہشت گردی کے اسبا ب وو سائل:  یوں تودہشت گردی کے مختلف سیاسی ،اقتصادی ، سماجی اور نظریاتی اسباب ہوا کرتے ہیں،اور حکام وقت کی سخت گیری ، منافقانہ رویہ اور نا انصافیوں پر مبنی دوہری سیاست اس کو فروغ دینے میں خاصہ اہم کردار ادا کرتی ہے ،لیکن اس کا سب سے بڑا سبب عقائداور افکارو خیالات میں غلو اور انتہاپسندی ہے ۔کم از کم عالم اسلامی کے نوجوانوں میںدہشت گردی  کے رجحان کی بنیادی وجہ یہی ہی۔
            یہ غلو کیوں پیداہوتا ہی؟ اس کے اسباب پر پچھلے مضمون میں روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔صحیح شرعی علم سے دوری مقاصد شریعت سے عدم واقفیت ،معتبر علماء دین اور ان کے فتووں کا عدم احترام کے علاوہ، احکام شریعت کے نفاذ سے چشم پوشی ، معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے سے بے توجہی اور مختلف ذرائع ابلاغ میںمخرب اخلاق پروگراموں اور فحاشی و عریانیت کے مناظر کی کھلی چھوٹ سے اس کوپوری غذا فراہم ہوتی ہے ۔
اس زمانے میںدہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے جو وسائل اختیار کرتے ہیںان میںعام طورپر ، خود کش بمباروں کو استعمال کرنا، متعارف بموں کے علاوہ کار بموں کے ذریعے منتخب ٹھکانوں کو نشانہ بنا نا ،گھات لگاکر قاتلانہ حملے کرنا ،اور اپنی شرائط منوانے کے لئے یرغمال بنانا ، ہوائی جہازوں کو اغوا کرنا وغیرہ وسائل شامل ہیں۔
Cدہشت پسندی شرعی نقطہ نظر سے :  دہشت پسندی کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے لیکن اسلامی شریعت جو ایک جامع، مکمل اور ابدی شریعت ہے اس میں وہ اساس موجود ہے جس کی بنیاد پر اس کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے ۔شریعت میں حکومت اور اجتماعی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کی دوقسمیں بیان کی گئی ہیں ایک کو اہل محاربت سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے کے لئے اہل بغاوت کا لفظ اختیار کیا گیا ہی۔بغاوت سے مراد ملک کے سیاسی نظام کے خلاف مسلح جد وجہد ہے ، جب کہ محاربت یا حرابہ سے مراد لوگوں کا مال جبرا چھین لینا ہے یا اس کے لئے انہیں ڈرانا، دھمکانا ، یا قتل کرنا ہی۔
ان مجرمانہ کاروائیوں میں ڈاکووں کا گروہ ملوث ہوتاہی۔ اسلام میں اسے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ اور زمین پر فساد پھیلانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے لئے سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ان لوگوں کی سزا  یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی پر لٹکائے جائیں ، یا مختلف اطراف سے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے جائیں ،ان کو علاقہ بدر کر دیا جائے ،اللہ کا ارشاد ہی:  ’’ِانَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہَ وَیَسْعَوْنَ فِیْ  الَرْضِ فَسَادً

Thursday, March 17, 2011

Wednesday, March 16, 2011

پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں حقوق انسانی کا تصور
مولانا عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
آزاد نگر ، پرتاپ گڈھ۔ 23001
E-mail:   salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
…………………………………………………………………………………………
 چودہ صدی قبل حقوق انسانی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ حقوق انسانی کا حقیقی علمبردار وہ نہیں ہے جو آج ببانگ دہل جھوٹا دعویٰ کرتا پھرتا ہے بلکہ حقیقی معنی ٰ میں حقوقِ انسانی کا پاسبان وہ ہے جسے آج دنیا دہشت گرد کا نام دے رہی ہی۔جس مذہب کو اور جس مذہب کے پیغمبر کی تعلیمات کو آج لوگ دہشت گر، آتنک واد اور Terrorist کہتے پھر رہے ہیں۔آئیے یہاں اس کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیںکہ حقیقی اور سچا حقوقِ انسانی کا علمبردار، امن عالم کا پاسبان، انسانیت کا پیامبر، رحمت اللعالمین ، شفیع المذنبین کون ہے ؟ جس نے انسانوں سے لے کر حیوانوں تک چرند وپرند سے لے کر کیڑے مکوڑوں تک کے حقوق بتائی۔وہ کون ہے جس نے چرواہوں کو امامت و قیادت سے سرفرازفرمایا۔وہ کون ہے جو سب کے لئے رحمت بن کر آیا ؟  وہ محمد الرسول اللہ ؐ کی ذات اقدس ہے جس نے ہر ایک کے الگ الگ حقوق بتائی، ہر ایک کا منصب و مقام متعین کیا۔
 حجۃالوداع کے موقع پرآپ  ؐ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے بنی نوع انسان کو حقوق انسانی کا ایک ایسا عظیم الشان ، جامع منشور عطا فر مادیا جس کا قیامت تک کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔امریکہ اور اہل مغرب نے جب کبھی خلوص دل سے اس کا مطالعہ کیا اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا تو بلاشبہ اسی روز سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گی ۔ آپ  ؐ نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہار باپ بھی ایک ہے ،سنو! کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ،نہ ہی سرخ رنگ والے کوسیاہ رنگ والے پر اور نہ ہی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت ہے ،سوائے تقویٰ کے ۔‘‘ (مسند احمد) دوسری جگہ خطبہ دیتے ہوئے   ارشاد فرمایا ’’لوگو! تمہارے خون، مال اور عزتیں ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے حرام کردی گئی ہیں ان چیزوں کی حرمت ایسی ہی ہے جیسی آج تمہارے اس دن (یعنی 10ذی الحجہ ) کی جیسی اس ماہ (یعنی ذی الحجہ ) کی اور جیسی اس شہر میں (مکہ)کی۔‘‘ (بخاری ،ابوداؤد، نسائی)
 نبی رحمت ؐ نے انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے یہاں تک احتیاط کرنے کا حکم دیا کہ ’’جو شخص لوہی(کے ہتھیار) سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کری، فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک اس سے وہ باز نہ آجائے ،خواہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(مسلم) غیر مسلموں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے فرمایا ’’جس نے کسی ذمی کو (بلاوجہ)قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ۔‘‘  غزوات کے لئے آپ  ؐ نے صحابہ کرام  ؓکو درج ذیل ہدایت دے رکھی تھیں : مقتولوں کا مثلہ نہ کرنا ، دشمن کی املاک میں لوٹ مار نہ کرنا ،دشمن کو اذیت دے کر قتل نہ کرنا ، دشمن کو دھوکے سے قتل نہ کرنا ،دشمن کو آگ میں نہ جلانہ ، دشمن کو امان دینے کے بعد قتل نہ کرنا ،عورتوں ،بچوں اور مزدوروں ،درویشوں اور عابدوں کو قتل نہ کرنا ، پھلدار درخت نہ کاٹنا ،جانوروں کو ہلاک نہ کرنا ، بد عہدی نہ کرنا ،جو لوگ اطاعت اختیار کرلیں ان کی جان و مال کی اسی طرح حفاظت کرنا جس طرح مسلمان کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے ،،۔(بخاری ،مؤطا،ابوداؤد،ابن ماجہ)
شریعت اسلامیہ محمدیہ ؐکی تعلیمات محض زبانی نہیں تھیں بلکہ ان تعلیمات پر مسلمانوں نے ہر عہد میں پوری پابندی سے عمل بھی کیا ،ہم یہاں مثال کے طور پر چند واقعات کا ذکر کررہے ہیں۔
 شعبان 8ھ میں رسول اکرم  ؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا ،غلط فہمی کی بنا ء پر بستی کے چند افراد کو کافر سمجھ کر قتل کردیا گیا۔رسول  ؐ کو اطلاع ملی تو آپ  ؐ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا ’’یا اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔‘‘  بعد میں آپ  ؐ نے تمام مقولین کی دیت ادا فرمائی اور ان کے دیگر نقصان کا معاوضہ ادا فرمایا ۔
رجب 2 ہجری میں آپ  ؐ نے ایک دستہ ،خبر رسانی کے لئے بھیجا جس کا ٹکراؤ قریش کے ایک قافلہ سے ہو گیا ۔صحابہ کرام ؓ نے مشاورت کے بعد رجب کے مہینے میں قریشی قافلہ پر حملہ کردیا، قافلہ کا ایک آدمی قتل ہوا ،دو گرفتار ہوئے اور ایک فرار ہوگیا۔رسول اکرم  ؐ کو خبر ملی تو آپ  ؐ نے فرمایا ’’میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ،چنانچہ دونوں قیدیوں کوآزاد کردیا اور مقتولوں کا خون بہا اداکیا۔
غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے ستر افراد قید ہوئے ۔یہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کے جانی دشمن تھے ۔مسلمانوں کو صفحہ ہستی کے مٹانے کے ارادے سے نکلے تھی، لیکن جب قیدی بن کر آئے تو رسول اللہ  ؐ نے صحابہ کرام ؓ  کو ان قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کر نے کا حکم دیا ،چنانچہ صحابہ کرام ؓ خود کھجوریں کھاتے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے جن قیدیوں کے پاس کپڑے نہیں تھے ،انہیں کپڑے فراہم کئے ۔ قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو بھی تھا جو رسول اللہ  ؐ کے بارے میں اشتعال انگیز تقریریں کیا کرتا تھا ۔حضرت عمر ؓ نے تجویز پیش کی ’’یا رسول اللہ  ؐ ! اس کے اگلے دو دانت تڑوادیجئے تاکہ آئندہ یہ آپ کے خلاف گستاخانہ زبان استعمال نہ کر سکے ۔‘‘ سزا دینے کا معقول جواز تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی ،لیکن رحمت عالم  ؐ نے حضرت عمر ؓ کی تجویز مسترد فرماکر قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی مثال فرمادی جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ رہے گی۔
جنگ بدر کے قیدیو ں میں آپ  ؐ کے داماد ابوالعاص بھی شامل تھے ۔آپ  ؐ کی بیٹی حضرت زینب ؓ نے ابوالعاص کے فدیے میں کچھ مال بھیجا جس میں ایک ہار بھی شامل تھا ،جو حضرت خدیجہ ؓنے اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت دیا تھا ۔رسول اللہ  ؐ نے وہ ہار دیکھا تو رقت طاری ہوگئی آپ  ؐ نے صحابہ کرام ؓ سے کہا کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو ابوالعاص کو بلا فدیہ چھوڑدیا جائے ۔صحابہ کرام ؓنے برضاو رغبت اجازت دی تب آپ  ؐ نے ابوالعاص کو رہا فرمایا۔
جنگ حنین میں چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے ۔رسول اکرم  ؐ  نے تمام قیدی بغیر فدیہ لئے نہ صرف آزاد کردیئے بلکہ تمام قیدیوں کو ایک ایک قبطی چادر ہدیۃً عنایت فرماکر رخصت کیا ۔آج پوری دنیا میں اپنی عظمت اور تہذیب کا پھر یرا بلند کرنے والے حقوق انسانی کے علمبردار اور محافظ اپنی صدیوں پرانی تاریخ میں سے کوئی ایک ہی ایسی مثال پیش کرسکتے ہوں تو پیش کرکے دکھائیں ۔
عہد فاروقی میں اسلامی لشکر نے ایک ذمی کی زراعت پامال کردی ۔حضرت عمر ؓ نے اس کو بیت المال میں سے دس ہزار درہم کا معاوضہ ادا فرمایا۔
 حقیقت یہ ہے کہ اسلا م نے آج سے چودہ سو سال قبل جس انداز میں حقوق انسانی کا تحفظ کیا ہے آج پوری دنیا اپنی تمام تر ترقی اور حریتِ فکر کے باوجود ان حقوق کا تصور تک نہیں کرسکتا ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948 ء کو انسانی حقوق سے متعلق 30 دفعات پر مشتمل جس عالمی منشور کا اعلان کیا تھا ،اسے شروع سے لے کر آخر تک پڑھ ڈالئے اس میں دئیے گئے تمام حقوق ’’انسان‘‘ کے حوالے سے ہی ملتے ہیں ،لیکن پیغمبر اسلام نے جس طرح ہر انسان کی الگ الگ حیثیت کا تعین کر کے حقوق مقرر کر کے فرمائے ہیں۔مثلاً والدین کے حقوق،اولاد کے حقوق ،شوہر کے حقوق، بیوی کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق ،ہمسایوں کے حقوق ، یتیموں کے حقوق،مسکینوں اور محتاجوں کے حقوق ،سوالیوں کے حقوق ،مسافروں کے حقوق ،قیدیوں کے حقوق ، غیر مسلموں کے حقوق ،حتی کے چند لمحوں کے لئے کسی جگہ ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھی (صاحب الجنب) کے حقوق بھی مقرر فرمادئےی۔آج پوری دنیا میںاس انداز سے حقوق کا تعین کرنے کی سوچ قیامت تک پیدا نہیں ہو سکتی ۔
اہل مغرب کے ہاں عورت کے حقوق کا بڑا شورو غوغا ہے ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ مغرب نے حقوق نسواں کے نام پر عورت کو سربازار عریاں کرنے کے علاوہ اگر کوئی اور حق دیا ہے تو ثنا خوان تقدیس مغرب کو اس کی وضاحت کرنی چاہئی۔ جب کہ اسلام نے نہ صرف عورت کی عصمت اور عفت کا تحفظ کیا ہے بلکہ اسے معاشرے میں با عزت اور باوقار مقام بھی عطا فرمایا ہے ۔ماں کی حیثیت سے اسے باپ سے بھی زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا ہے ۔بیوی کی حیثیت سے اس کے الگ حقوق مقرر فرمائے ،بیٹی اور بہن کی حیثیت سے بھی اس کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ۔اگر بیوہ ہے تب بھی اس کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ،اگر مطلقہ ہے تب بھی اس کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ۔کیا ترقی یافتہ اور حریت فکر کا علمبرداردنیا عورت کو آج بھی یہ حقوق دینے کے لئے تیا رنہیں ؟ سچ بات یہ ہے کہ حقوقِ انسانی کے سلسلے میں پیغمبر اسلام نے جس طرح واضح انداز میں حقوق بتائے ہیں ، اس کی مثال کسی اور کی تعلیمات میں ملنی مشکل ہی۔٭٭