Wednesday, March 23, 2011

اللہ کے پیارے نبی    
کے ہر ارشاد میں  ہزاروں حکمتیں پوشیدہ ہیں

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی 
 ڈائرکٹر اسکالرس ملٹی سروسز  
نمبر۶۲، ہینس روڈ ،تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051
E-mail:  
salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
………………………………………………………………………………………
پیارے بچو! آج ہم تمھیں سیرت النبی  ؐ کے خاص موقع پر اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث سناتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں میل و محبت صرف اللہ کے لئے رکھّو۔اور اگر کسی سے بغض و نفرت کرو تو وہ بھی اللہ ہی کے لئے کرو۔ اپنی ذاتی کوئی غرض اس میں شامل نہ ہو.....ہمارے نبی کے چچا زاد بھائی، امیر المومنین حضرت علی ؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے ایک موقع پر عرب کے مشہور جرجا نامی پہلوان کو مقابلہ میں پچھاڑ دیا۔
یہ وہ اسلام کا دشمن تھا جس نے مسلمانوں کو سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔جب اس پہلوان کا مقابلہ حضرت علیؓ سے ہوا تو یہ ناکام ہوا حضرت علیؓ اس دشمنِ اسلام کے سینے پر چڑھ گئے چاہا کہ تلوار سے اس کا کام تمام کردیا جائے تو اس بدبخت نے حضرت علیؓ کے چہرے پر تھوک دیا۔آپ فوراً اس کے سینہ سے اُتر گئی۔ اور اس کو چھوڑ دیا۔ اس پر اس پہلوان کو بڑا تعجب ہوا۔ کہنے لگا کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا کہ جس نے اپنے دشمن کو مقابلہ میں ہرادیا ہو اور اس نے اس کو زندہ چھوڑ دیا ہو۔اور جب کہ اس کے دشمن نے اپنے مدّ مقابل کے چہرے پر بھی تھوک دیاہو تب تو غصہ اور تیز ہو جاناچاہئے تھا اور اپنے اس دشمن کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہئے تھا۔ حضرت علیؓ سے جب اس پہلوان نے یہ سوال کیا تو آپ نے اللہ کے پیارے نبی ؐ کا ارشاد سنادیا۔ کہ میں نے تجھے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن ہونے کی وجہ سے پچھاڑا تھا۔ اپنی اس میں کوئی غرض شامل نہیں تھی اور قریب تھا کہ میں اپنی تلوار سے مارڈالتا لیکن تونے میرے چہرے پر تھوک دیا تو مجھے کچھ غصہ آگیا۔ اس حال میں تجھے مارڈالنا میرا یہ عمل خالص اللہ کے لئے نہ ہوتا بلکہ میر ے نفس کا بھی اس میں حصہ شامل ہوجاتا۔
خطرہ یہ تھا کہ کل قیامت میں جب میری اللہ کے سامنے حاضری ہوتی تو مجھ سے یہ سوال کیا جاسکتا تھاکہ اے علی ؓ تونے اپنے دشمن کو محض ہمارے لئے تو نہیں قتل کیا۔ بلکہ تیرے نفس کا بھی اس میں حصہ شامل تھا۔ تو میں اپنے مالک کے سامنے کیا جواب دیتا۔ اللہ کے پیارے نبی ؐ نے ہمیں یہی اخلاقی سبق پڑھایا ہے کہ محبت کرو تو اللہ کے لئے اور کسی سے نفرت کرو تو محض اللہ ہی کے لئی۔ جب حضرت علیؓ کی زبانِ مبارک سے اس دشمن اسلام جرجا پہلوان نے یہ کلمات سنے تو اس کے دل میں فوراً اسلام کی محبت اتر گئی۔ وہ حضرتِ علیؓ کے دستِ حق پرست پر ایمان لے آیا۔ اور اسلام میں داخل ہوکر.....اس نے اسلام کے لئے اپنی بے حد قربانیاں دیں۔ بچو اللہ کے اس پیارے نبی ؐ کے پاک ارشاد سے اور حضرت علیؓ کے اس تعجب خیز واقعہ سے ہمیں سبق لینا چاہئے کہ اسلام نے کیسی اچھی تعلیم دی۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اسلام اخلاق کی تلوار سے پھیلا ہی۔ ظاہری تلوار سے اسلام ہرگز نہیں پھیلا۔
جب حضرت علیؓ کی تلوار نیام سے باہر تھی تو اس پہلوان نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ حضرت علیؓ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور جب حضرت علی ؓ کی تلوار نیام کے اندر ہوگئی تب سیدنا حضرت علی ؓ کے اخلاقی برتاؤ کو دیکھ کر اس دشمنِ اسلام نے اسلام کو قبول کیا۔
جس نے سینکڑوں صحابہ ؓ کو شہید کرکے مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچائی تھیں۔اس واقعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ اللہ کے پیارے نبی ؐ کے ہر ارشاد میںہزاروں حکمتیںپوشیدہ ہیں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ محبت کرو تو اللہ پاک کے لئے اور کسی سے بغض ونفرت کرو تو محض اللہ ہی کے لئی۔اپنی کوئی ذاتی غرض شامل نہ ہو۔ اس واقعہ سے ہمیں بھی اخلاقی سبق لینا چاہئے کہ ہم بھی اللہ کے پیارے نبی ؐ کے اس پاک ارشاد پر عمل کریں تاکہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو۔ اور اپنی رحمتوں کی بارش ہم پر بھی برسائی۔

No comments:

Post a Comment