Sunday, March 13, 2011

         کلام تیغ الہ آبادی
[مندرجۂ ذیل قطعہ جنوری ۱۹۵۳ ء میں رسالہ آجکل کے
 صفحہ ۴۵ پر شائع ہوا تھا]

کتنےجانسوز مراحل سے گزرکر دل نے
کس قدر سلسلۂ سود وزیاں دیکھے ہیں

ڈوبتی رات کےسہمےہوئے کتنےتارے
جھومتی صبح کےآنچل میں یہاں دیکھےہیں

ٹوٹتےسازبکھرتےہوئےنغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کےنشاں دیکھےہیں

جس سیاست کو تھا بیمارتفکّر سے عناد
اس کی قدروں میں تضادوںکےبیاں دیکھےہیں

موت کو جس کےتصوّر سے پسینہ آجائے
زیست کےدوش پہ وہ بار گراں دیکھے ہیں

وقت کے تند سمندرمیں ہر اک دھارے نے
کتنے خنجر مری گردن پہ رواں دیکھےہیں

پھر بھی اےحسن جنوں،کیف جنوں،جوش جنوں
کب مہ وسال نے یہ عزم جواں دیکھے ہیں

سابقہ کس سے پڑا ہے ابھی طوفانوں کو
ہاں ابھی موت نےانسان کہاں دیکھےہیں
پیشکش
از رضیّہ کاظمی

No comments:

Post a Comment