Wednesday, March 23, 2011

دہشت گردی اور شریعتِ اسلام


دہشت گردی اور شریعتِ اسلام
عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی،
  ڈائرکٹر اسکالرس ملٹی سروسز  
نمبر۶۲، ہینس روڈ ،تھرڈ فلور ، اجپشین بلاک، بنگلور۔ 560051
E-mail:   salmanpbh@yahoo.co.in     Mob:  9341378921
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس وقت ذرائع ابلاغ میںسب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا موضوع اگر کوئی ہے تو وہ بلا شبہہ دہشت گردی کا ہی۔اور کیوں نہ ہو؟ یہ بروقت ایک عالمی مسئلہ ہے اور عالم انسانیت کو در پیش مسائل میںسب سے اہم یہی ہی۔ دنیا کا ہر ملک اس سے کسی نہ کسی درجہ میں متاثر ہے خواہ اس کا تعلق ترقی یافتہ ممالک سے ہو یا ترقی پذیر ممالک سی،پھر بھی موجودہ حالات کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر مسلم ممالک ہی اس کا زیادہ وسیع پیمانے پر شکار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
دہشت گردی کانہ کوئی ملک ہے نہ وطن،نہ کوئی دین ہے نہ مذہب ،لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی کم زوری ، آپسی اختلافات اورمؤثر ذرائع ابلاغ سے محرومی کا فائدہ اٹھاکر دانستہ طور پر،یا اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کے نتیجے میں اور گم راہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر نادانستہ طورپر ،اسلام اور مسلمانوں کے سر دہشت گردی کا الزام تھوپا جاتا ہی۔مندرجہ ذیل سطور میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اختصار کے ساتھ حقائق سے پردہ اٹھاکر شرعی نقطئہ نظر کی وضاحت کی جائی:
mدہشت گردی کی تعریف:دہشت گردی انگریزی کے لفظ Terrorismکا ترجمہ ہے ۔ عربی میں اسی’’ ارھاب ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ اس لفظ کا صحیح ترجمہ نہ ہونے باوجود زبان زد ہوچکا ہے اور عربی زبان کی اکیڈمی نے بھی اسے تسلیم کرلیاہے ۔errorism کا  مناسب ترجمہ لفظ ’’ارعاب‘‘ سے کیا جاسکتاہے جو کہ صرف مادی خوف دلانے پر دلالت کرتاہے جب کہ ارھاب یا رھب عام طور ایسے ڈرکے معنی میں استعمال ہوتاہے جس میںساتھ ساتھ احترام کی کیفیت بھی پائی جائے ۔قرآن مجیدمیں ارھاب ڈرانے کے معنی میں استعمال ہواہی، اللہ نے دشمنوں کے لئے عسکری قوت اور جنگی سازو سامان کی تیاری کے ذریعے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
 ’’وأَعِدُّوْا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَّمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہِ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ‘‘
(اور تم ان کے مقابلہ کے لئے طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کوتیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو )۔
دہشت پسندی کی اصطلاحی تعریف میں شدید اختلاف ہی، اور اس کی کوئی ایسی جامع تعریف جو سب کے لئے قابل قبول ہو مشکل بھی ہے اس لئے کہ ایک کی نظر میں اگر کوئی شخص یا تنظیم یا ملک دہشت پسند ہے تو دوسرے کی نظرمیں وہی شخص مجاہد آزادی یا قومی ہیرو، وہ تنظیم قومی سلامتی یا حقوق کی بازیابی کا واحدحل ،اور وہ ملک امن و سلامتی کا سب سے بڑا علم بردار ہے ۔مختلف عالمی اداروں نے جس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے ،اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اس کے مفہوم کی وضاحت کی ہے ،لیکن اسلامی فقہ اکیڈمی کی بیان کردہ تعریف طویل ہونے کے باوجود صحیح تر معلوم ہوتی ہی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دہشت گردی ،انسانوں کے جان و مال ، دین و عقل اور عزت وآبروپر ،خوف و ہراس اور دہشت پھیلانے کے لئے ہر وہ ظلم و زیادتی ہے جس کا ارتکاب افراد ، گروہ یا ممالک ،مجرمانہ کاروائیوں کے ذریعے کرتے ہیں؛ تاکہ اپنے سیاسی، اعتقادی اور نظریاتی مقاصد کی تکمیل میں کامیا ب ہو سکیں۔اس ظلم و زیادتی میں ہر طرح کاتشدد و ضرر رسانی ، مسلح ڈاکہ زنی ،زور و دھمکی ، قتل و غارت گری ،خاص و عام املاک کی تباہی،قدرتی وسائل اور ماحولیات کی بربادی  وغیرہ شامل ہی۔
اس تعریف سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اپنے ملک و وطن سے غیر ملکی غاصبانہ قبضہ ہٹانے اور آزادی کے حصول کے لئے مسلح جدو جہد دہشت گردی کا حصہ نہیں ہے ، بلکہ انسان کا فطری اور آئینی حق ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ نے بھی اپنے دستور اور قراردادوں کے ذریعے دی ہے ۔
تاریخی پس منظر:  دہشت پسندی بحیثیت نظریہ، انقلاب فرانس کے دوران سن۳۹ـ۴۹۷۱ ء کے دوران وجودمیں آیا،جس سے مراد ایک ایسے نظام کا فروغ تھا جو دہشت پر مبنی ہو۔یعنی اس کی پیدائش اور اٹھان یورپی ذہن و فکر کی مرہون منت ہی، اور یہ حقیقت خود بخود، ان جھوٹے اور بے بنیاد خیالات کی نفی کرتی ہے جو اس کا تعلق اسلام سے جوڑنے کی بے جاسعی کرتے ہیں۔لیکن دہشت پسندی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں ہمیشہ ہی موجود رہا ہی۔اس کا آغاز انفرادی طور پر قابیل سے ہوا ؛کیونکہ اس نے اپنے بھائی ہابیل کو ظلما قتل کرکے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قتل جرم کا ارتکاب کیا۔ اس کا یہ عمل بلا شبہ دہشت گردی کے قبیل سے تھا ۔
Nجہاں تک اجتماعی دہشت گردی کی بات ہے تو اس سلسلہ میں ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کا آغاز سیکاری ( sicarri)سے ہوا جو یہودیوں کی انتہائی منظم جماعت تھی، انہوں نے پہلی صدی عیسوی میں سن ۶۶سی۳۷ء کے دوران فلسطین میں رومیوں اور ان ہم نواؤں کے خلاف زبردست دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اس طرح کہ معصوموں کا بڑے پیمانہ پر قتل عام کیا ،حکام کی رہائش گاہیں منہدم کردیں، سرکاری کاغذات کو تہس نہس کر دیا ،غلے کے گودام کو آگ لگا دی ، آب رسانی کے نظام کوتباہ کر دیا۔ان کی دہشت گردی کا شکار غیر یہودی ہی نہیں بلکہ وہ یہودی بھی بنے جو اس دہشت گردی کے حق میں نہیں تھی۔
ساتویں صدی عیسوی کے ہندوستان میں ہندؤوں کا ٹھگی( Thuggee) نامیفرقہ ،مذہبی رسومات کی ادائیگی، دہشت گردی کے ذریعے کیا کرتا تھا ، وہ اس طرح کہ اپنے دیوتا کالی کو قربانی پیش کرنے کے لئے راہ گیروں اور مسافروں کا سر قلم کیا کرتاتھا۔
عہد وسطی میں فاتیکان سے تعلق رکھنے والے عیسائی پیشوائوں نے کلیسا کے اقتدار اور دبدبے کو مضبوط کرنے کے لئے دہشت گردی کو اپنایا، اس سلسلہ میں پوپ پیوس ۰۱،پوپ جریگوری۳۱ اور پوپ گوپس۵ کے اسماء قابل ذکر ہیں کہ انھوں نے اپنے مخالفین کے صفایا کے لئے معصوموںکا بڑے پیمانہ پر قتل عام کرایا۔
           
سولہویں صدی عیسوی میں ہسپانویوں نے ریڈ انڈین قوموں کی جس وحشت و بربریت کے ساتھ نسل کشی کی وہ دہشت گردی کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہی۔
انیسویں صدی کے اواخر میں روس کی سوشلسٹ انقلابی پارٹی نے دہشت گردی کے نت نئے طریقے اپنائے ۔
 مسلم دورِحکومت میں خوارج کی تحریک ،فرقہ باطنیہ اوراس کی ’’حشاشین ‘‘ (افیمچیوں کا گروہ) نامی مشہور جماعت قابل ذکر ہے کہ انھوں نے اپنے خاص مقاصد کی تکمیل کے لئے دہشت پسندی کو وسیلہ کے طور پر اختیار کیا ۔اسی طرح صلیبی جنگ جو عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر مسلط کی گئی وہ بھی دہشت گردی کا حصہ تھی ۔
دہشت گردی کے حوالے سے بیسویں صدی ایک یادگار صدی ہے کہ اس میں امن، سلامتی ، انسانی حقوق کا تحفظ وغیرہ کے زبردست نعروں کے درمیان یہودیوں کی جانب سے فلسطین میں دہشت گردی کے نئے دور کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے اس طرح عیسائیوں کی جانب سے بوسنیا اور کوسوو میں دہشت گردی کی بد ترین مثالیں قائم کی گئیں جو انسانی تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔
۱۱ ستمبر۱۰۰۲ ء کونیو یارک امریکہ میں ہونے والا واقعہ یقینا دہشت گردی کی ایک بڑی کاروائی کے نتیجے میں پیش آیا۔ اس کے اصل مجرموں کے بارے میں کوئی تحقیقی پورٹ تو آج تک سامنے نہ آسکی، لیکن اس کی قیمت مسلم دنیا تا حال چکائے جارہی ہی۔
دہشت پسندی کی قسمیں:  دہشت پسندی کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں لیکن واشنگٹن امریکہ میں ۶۷۹۱ء میں دہشت پسندی پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں اس کی جو شکلیں متعین کی گئی ہیں وہ اس اعتبار سے کافی جامع ہے کہ اس میں اس کی اکثر صورتیں آگئی ہیں ، چنانچہ اس میں حسب ذیل شکلیں بیان کی گئی ہیں:   ۱۔کسی خاص نظریہ کو پھیلانے کے لئے دہشت گردی۔۲۔قومی مصلحت کے تحت دہشت گردی۔ ۳۔ دینی ،نسلی یا لسانی بنیاد پر دہشت گردی۔ ۴۔نفسیاتی مریض کی دہشت گردی۔
دہشت گردی کے اسبا ب وو سائل:  یوں تودہشت گردی کے مختلف سیاسی ،اقتصادی ، سماجی اور نظریاتی اسباب ہوا کرتے ہیں،اور حکام وقت کی سخت گیری ، منافقانہ رویہ اور نا انصافیوں پر مبنی دوہری سیاست اس کو فروغ دینے میں خاصہ اہم کردار ادا کرتی ہے ،لیکن اس کا سب سے بڑا سبب عقائداور افکارو خیالات میں غلو اور انتہاپسندی ہے ۔کم از کم عالم اسلامی کے نوجوانوں میںدہشت گردی  کے رجحان کی بنیادی وجہ یہی ہی۔
            یہ غلو کیوں پیداہوتا ہی؟ اس کے اسباب پر پچھلے مضمون میں روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔صحیح شرعی علم سے دوری مقاصد شریعت سے عدم واقفیت ،معتبر علماء دین اور ان کے فتووں کا عدم احترام کے علاوہ، احکام شریعت کے نفاذ سے چشم پوشی ، معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے سے بے توجہی اور مختلف ذرائع ابلاغ میںمخرب اخلاق پروگراموں اور فحاشی و عریانیت کے مناظر کی کھلی چھوٹ سے اس کوپوری غذا فراہم ہوتی ہے ۔
اس زمانے میںدہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے جو وسائل اختیار کرتے ہیںان میںعام طورپر ، خود کش بمباروں کو استعمال کرنا، متعارف بموں کے علاوہ کار بموں کے ذریعے منتخب ٹھکانوں کو نشانہ بنا نا ،گھات لگاکر قاتلانہ حملے کرنا ،اور اپنی شرائط منوانے کے لئے یرغمال بنانا ، ہوائی جہازوں کو اغوا کرنا وغیرہ وسائل شامل ہیں۔
Cدہشت پسندی شرعی نقطہ نظر سے :  دہشت پسندی کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے لیکن اسلامی شریعت جو ایک جامع، مکمل اور ابدی شریعت ہے اس میں وہ اساس موجود ہے جس کی بنیاد پر اس کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے ۔شریعت میں حکومت اور اجتماعی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کی دوقسمیں بیان کی گئی ہیں ایک کو اہل محاربت سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے کے لئے اہل بغاوت کا لفظ اختیار کیا گیا ہی۔بغاوت سے مراد ملک کے سیاسی نظام کے خلاف مسلح جد وجہد ہے ، جب کہ محاربت یا حرابہ سے مراد لوگوں کا مال جبرا چھین لینا ہے یا اس کے لئے انہیں ڈرانا، دھمکانا ، یا قتل کرنا ہی۔
ان مجرمانہ کاروائیوں میں ڈاکووں کا گروہ ملوث ہوتاہی۔ اسلام میں اسے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ اور زمین پر فساد پھیلانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے لئے سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ان لوگوں کی سزا  یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی پر لٹکائے جائیں ، یا مختلف اطراف سے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے جائیں ،ان کو علاقہ بدر کر دیا جائے ،اللہ کا ارشاد ہی:  ’’ِانَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہَ وَیَسْعَوْنَ فِیْ  الَرْضِ فَسَادً

No comments:

Post a Comment